Warning: Undefined variable $forward in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 78
Warning: Undefined variable $remote in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 84
آؤ وطن کے ایک ایک ذرے سے پیار کریں
اشیاء کی پہچان ضد سے ہوتی ہے …. جیسے سردی کی پہچان گرمی سے ….. دن کی رات سے ….. صبح کی شام سے ….. روشنی کی تاریکی سے ….. حق کی باطل سے ….. اسی طرح آزادی کی شناخت غلامی سے ہوتی ہے۔ قوموں کی زندگی میں وہ مرحلہ بہت سخت ہوتا ہے ….. جب ان کی آزاد ی سلب کر کے انہیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ کبھی قوموں کو ان کی عیش کوشی اور تساہل پسندی کی سزا کے طور پر غلام بنایا جاتا ہے۔ کبھی ان کی خرمستیوں …. اور بد اعمالیوں …. کے نتیجے میں وہ روز و بد دیکھنا پڑتا ہے …..
جب ان کو طوق و سلاسل پہنا دیئے جاتے ہیں …. ان کی سوچ اور فکر پر بھی پہرے بٹھا دیئے جاتے ہیں۔ اظہار ِ خیال کی آزادی چھین لی جاتی ہے …. ہمارا یہ سر سبز و شاداب خطِ ارض جس کے شمال و جنوب میں سر بھنک پہاڑوں نے قدرتی فصیل قائم کر ر کھی ہے۔ جس کی آزاد فضا ….. کے نیلے بیکراں آسمان …..پر سنہری کرنوں کا جال بنتے ہوئے سورج …. طلوع ہوتا ہے۔ اور چاند کی دو پہلی کرنیں …. جس وطنِ عزیز کے….. ذرے ذرے …. کو حسن عطا کرتی ہیں۔ آ ج مشرق سے نکلتے ہی سورج نے یہ مژدہ جانفزا سنایا ….. اور کرنوں نے اہلِ زمین تک یہ پیغام دل نشین پہنچایا ….. کہ آج پاکستان ….. میرے پیارے وطن کا یومِ آزادی ہے …..
یومِ آزادی کی صبح کتنی روشن اور تباناک ہے …. یہ روشنی اس مقدس ….خون ….. اور لہو …. جو اس کی آزادی ….. کے حصول میں بہایا گیا۔ ہم اس پاکیزہ ….. لہو کے ….. قطرے قطرے کو ….. لعل وگہر …. سے زیادہ قیمتی سمجھتے ہیں ….. اور ان شہیدوں ….. کو سلام ِ عقیدت ….. پیش کرتے ہیں۔ جنہوں نے اپنی جان ….. پیارے وطن ….. پاکستان کی خاطر قربان کر دی تھی۔ آزادی آسانی سے مل جاتی ہے…. نہیں نہیں …. ہر گز نہیں …. جو قوم بھی آزادی کی طلب گار ہوتی ہے ….. اسے اپنی جان…. مال….. عزت…. اپنے بچے …. جوان ….. اور بوڑھے آزادی کے نام پر قربان کرنے پڑتے ہیں۔ تب کہیں …. آزادی کی شمع …. روشن ہوتی ہے۔ یہ عظیم ….. وطن ….. ہمیں یونہی نہیں مل گیا تھا …. اس کے پیچھے بے مثال جدوجہد اور لاکھوں جانوں کی قربانیاں ہیں …. تب ہمیں …. آزاد ی …. جیسی نعمت میسر آئی۔ آزادی کی نعمت کی قدر پوچھنا ہو تو ان ….. گمنام شہیدوں …. سے پوچھو ….. جنہوں نے آ زادی کیلئے جانیں نثار کیں۔ آزادی کی نعمت کی قدرو قیمت ان …. بے گوروکفن …. لاشوں …. سے پوچھو …. جنہیں آزادی کا مطالبہ کرنے پر گولیوں سے بھون دیا گیا ….. اور جن کے …. سینے سنگینوں سے …. چھلنی کر دیئے گئے۔ لیکن اپنی آزادی کے مطالبے ….. سے منہ نہ موڑا ….. آزادی کا مفہوم ….. وہ شیر خوار بچے …. بیان کر سکتے ہیں
…. جنہیں فضا میں اچھال کر …. سنگینوں اور کرپانوں میں ….. پرو دیا گیا۔ آزادی کی نعمت اس پرندے سے دریافت کرنی چاہئے …. جسے عین عالمِ شباب میں ظالم صیاد نے پنجرے …. میں مقید کر دیا ہو…. اور آزادی کے حصول کیلئے …. اس نے اپنا سر پنجرے …. کی بے رحم سلاخوں …. سے مار مار کر زخمی کر لیا ہو….. 14 اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر ایک اسلامی مملکت نمودار ہو گئی …. یومِ آزادی کا پیغام آپ کے نام ہے …. کہ آؤ وطن سے پیار کریں ….. اس کے شہروں سے ….. اس کی بستیوں سے …. اس کے باغوں سے …. اس کے جنگلوں سے …. اس کے ویرانو ں سے ….. اور اس کے ایک ایک ذرے سے پیار کریں۔ یہ وہ ملک ہے …..
جس کی بنیاد میں دس لاکھ شہیدوں کا لہو ہے …. ہم اپنے وطن سے پیار کس طرح کریں …. وطن سے محبت کا تقاضا کیا ہے ….. وطن سے محبت کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس کی نظریاتی اساس کے محافظ بن کر اٹھیں ….. اور دنیا کو بتا د یں …. کہ پاکستان کا مطلب ”لا الہ الا اللہ“ کے سو ا کچھ نہیں ہے۔ ا س پاک سر زمین پر اللہ کی حکمرانی ہو گی …. اور دوسرا تقاضا کہ ملت کا ہر بچہ….. ہر جوان اس کی دفاعی سرحدوں کا محافظ بن کر اٹھے …. تاکہ دشمنان ِ وطن اسے میلی آنکھ سے بھی نہ دیکھ سکیں…. تاکہ وہ طاقتیں جو ہمیں کمزور سمجھ کر ہڑپ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ….. وہ پاکستان کو خوانِ نعمت پر …. سجا کیک …. کا ٹکڑا نہ سمجھیں ….. اور وطن سے محبت کا تیسرا تقاضا یہ ہے ….. اس ملک پر حکومت کرنے والوں کو احتساب کی گرفت میں رکھیں …..تاکہ حکمران افراد ِ ملت پر ظلم نہ کر سکیں۔