آنکھوں کا عطیہ دینا …. اہمیت اور افادیت

تحریر….پروفیسر ڈاکٹر ملازم حسین بخاری
تعارف
آنکھیں انسانی جسم کا ایک قیمتی حصہ ہیں …. یہ نہ صرف ہمارے لئے دنیا کو دیکھنے کا ذریعہ ہیں بلکہ انسانی زندگی کی خوبصورتی، رنگینیوں اور خوشیوں کا احساس بھی فراہم کرتی ہیں۔ بقول میر،
میر، ان نیم آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
مگر کسی فرد کی بصارت متاثر ہوتی ہے، تو اس کی زندگی کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ آنکھوں کا عطیہ دینا اس مسئلے کا حل فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہے، جو بصارت سے محروم لوگوں کیلئے ایک امید کی کرن ثابت ہو سکتا ہے۔ سری لنکا دنیا میں آنکھوں کا عطیہ کرنے کیلئے مشہور ہے اور ہر سال متعدد ملکوں کے ہزاروں نابینا افر اد کو آنکھوں کے ٹشوز یا و کارنیہ کے عطیات بھیجتا ہے۔ سری لنکا سے آنکھوں کے عطیات حاصل کرنے والا سب سے بڑا ملک پاکستان ہے۔ جہاں سالانہ دو ہزار کے لگ بھگ نابینا کو عطیے سے حاصل ہونے والے کارنیہ سے بینائی ملتی ہے۔ پاکستان میں آنکھوں کا عطیہ کیوں نہیں دیا جاتا؟ پاکستان میں بصارت سے محروم مریضوں کی تعداد ساڑھے سولہ لاکھ تک پہنچ گئی ہے اور اس میں زیادہ تر بچے شامل ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں آنکھوں کے کارنیہ عطیہ کرنے کا رجحان نہیں ہے۔ پاکستان میں نابینا افراد کی بینائی بحال کرنے کیلئے ہر سال آنکھوں کے کارنیوں کے کم از کم دس ہزار عطیات کی ضرورت ہے۔ لیکن پاکستان میں شاید گنتی کے چند افراد ہی ایسے عطیات دیتے ہیں۔ ان میں بھی زیادہ تر موت کی سزا پانے والے جیل کے وہ قیدی ہوتے ہیں ….. جنہوں نے ڈاکٹر کی ترغیب پر وصیت کی ہوتی ہے۔ بعض اوقات کچھ لوگ اپنی آنکھوں کا کارنیہ عطیہ کرنے کی وصیت بھی کر جا تے ہیں۔ لیکن ان کی موت کے بعد ان کے عزیز اوقارب اس وصیت پر عمل درآمد نہیں

ہونے دیتے۔
آنکھ کا کارنیہ کیوں خراب ہوتا ہے ؟
آنکھوں کے ماہرین کے مطابق زیادہ تر چار بڑی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ آنکھ میں ٹراما ہے، دیہاتوں میں کاشتکاری کے دوران گندم اور چارہ کاٹنے کے وقت جو ذرات آنکھ میں جاتے ہیں …. وہ سیدھے کورنیہ میں جا کر لگتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر انفیکشن ہے، ٹراما کے بعد آنکھ میں انفیکشن ہو جاتا ہے اگر آنکھ میں زخم ہو جائے اور انفیکشن ہو جائے تو کچھ عرصے بعد زخم تو بھر جاتا ہے لیکن اگر وہ نشان چھوڑ گیا تو یہ کورنیہ
کے خراب ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے …. اس کی وجہ کافی لوگوں کے کورنیہ خراب ہو جاتے ہیں۔ تیسری بڑی وجہ الرجی ہے جس سے آنکھ کا کورنیہ کیوں خراب ہوتا ہے ؟ اس کے علاوہ غذائیت کی کمی یا موروثی مسائل بھی بینائی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور اس کی وجہ سے اندھا پن بھی ہو سکتا ہے۔ دیہاتوں میں کاشتکاری کے دوران، چا رہ کاٹنے کے وقت جو ذرات آنکھوں میں جاتے ہیں وہ سیدھے کورنیہ میں جا کر لگتے ہیں جس کے بعد انفیکشن ہو جاتی ہے، اس کی وجہ سے کافی لوگوں کی آنکھوں کے کورنیہ خراب ہو جاتے ہیں۔ ”آجکل آنکھوں میں رنگ برنگے لینز لگائے جا رہے ہیں، نوے فیصد یہ وہ لینز ہوتے ہیں جو ایک دو بار استعمال کرنے والے ہوتے ہیں لیکن نہ یہ بیچنے والا بتاتا ہے او ر نہ ہی خریدار کو پتہ ہوتا ہے اور آنکھوں میں انفیکشن ہو جاتا ہے۔ لہذا اگر ایک بار آنکھ میں سفیدی آ جائے تو پھر یہ دواؤں سے ٹھیک

نہیں ہوتا جب تک ٹرانسپلانٹ نہ ہو،
آنکھوں کے عطیہ کی اہمیت۔
بصارت کی بحالی ….. آنکھیں نہ صرف دیکھنے کا ذریعہ ہیں بلکہ ہمارے جذبات کی سب سے گہری زبان بھی ہیں۔ آنکھوں کا عطیہ دینے سے ہزاروں افراد کی بصارت بحال کی جا سکتی ہے۔ کسی بھی انداز میں بصارت کھو دینے والے افراد کیلئے یہ ایک نئی زندگی کی شروعات ہو سکتی ہیں۔ سما جی اثر ….. بصارت کی بحالی کے بعد متاثرہ شخص کی زندگی میں بہتری آتی ہے، و ہ دوبارہ تعلیم حاصل کر سکتا ہے، کام کر سکتا ہے اور معاشرتی زندگی میں بھرپور حصہ لے سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف فرد کی زندگی بہتر ہوتی ہے بلکہ سماج کی مجموعی ترقی میں بھی مدد ملتی ہے۔
(انسانیت کی خدمت) آنکھوں کا عطیہ دینا ایک نیک عمل ہے اور یہ خود دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ ظاہر کرتا ہے، یہ روحانی سکون اور ذہنی اطمینان کا باعث بنتا ہے۔ (تعلیمی و آگاہی) آنکھوں کے عطیہ کی اہمیت اور اس کے فوائد کے بارے میں آگاہی بڑھانے کیلئے مختلف مہمات چلائی جا رہی ہیں۔ یہ عوامی شعور میں اضافہ کرتا ہے کہ کیسے ہر فرد اپنا حصہ ڈال کر دوسروں کی زندگیوں میں تبدیلی لا سکتا ہے۔ ( عطیہ دینے کا عمل) آنکھوں کا عطیہ دینا ایک سا دہ سا عمل ہے۔ اگر کوئی فرد مر جا تا ہے یا اس کی آنکھیں کسی وجہ سے ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ تو اس کے ورثا یا قر یبی افراد آنکھوں کے عطیے کیلئے رضا مند ہو سکتے ہیں۔ اکثر ملکوں میں اس عمل میں قانونی اور طبی طریقے موجو د ہیں۔ خواہش مند افراد کو چاہے کہ وہ پیشگی طور پر اپنی خواہشات کا اظہار کرے تاکہ بعد میں کسی تذبذب کا شکار نہ ہونا پڑے۔ (چیلنجز اور رکاوٹیں) آنکھوں
کے عطیہ دینے کے عمل میں کچھ چیلنجز موجود ہیں۔ (شکوک و شبہات) بعض لوگ آنکھوں کے عطیہ سے متعلق غلط معلومات یا شکوک و شبہات رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ عطیہ دینے سے گریز کرتے ہیں۔ (آگاہی کی کمی) بہت سے لوگوں کو آنکھوں کے عطیہ کے فوائد اور اس کے عمل کے بارے میں مکمل آگاہی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے انہیں یہ اہم عمل کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ (قانونی رکاوٹیں) بعض ممالک میں قانونی مسائل یا قوائد و ضو ابط کی پیچیدگی کی وجہ سے آنکھوں کا عطیہ دینا مشکل ہوتا ہے۔ اپنی آنکھوں کی حفاظت کرنی چاہیے، متوازن غذا اپنائیں۔ آنکھوں کی صحت کیلئے مچھلی، گاجر، پالک، بادام، زیتون، اور سن فلاور سیڈز آئیلز بینائی کیلئے بہترین سمجھے جاتے ہیں۔ موبائل اور کمپیوٹر سکرین کا محدود استعمال آجکل ڈرائی آئی کی بیماری ایجاد ہوئی ہے۔ جو زیادہ دیر تک موبائل اور کمپیوٹر سکرین پر نظر یں جمانے سے ہوتی ہے۔ جو آنکھوں کیلئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ وقفے وقفے سے سکرین سے نظریں ہٹا کر دور دیکھنے کی عادت ڈالیں تاکہ آپ کی آنکھیں کمزور نہ ہوں۔ (نیند کی کمی اور رات کو دیر تک جاگنا)
آجکل لوگ رات کو دیر تک جاگتے ہیں او ر ان کی نیند پوری نہیں ہوتی۔ اچھی بینائی کیلئے نیند پوری لینا ضروری ہے۔ کم نیند سے آنکھوں میں خشکی اور تھکن پیدا ہو سکتی ہے … جس سے نظر دھندلی محسوس ہو سکتی ہے۔ (آنکھوں کو دھوپ سے بچائیں) سورج کی تیز روشنی آنکھوں کیلئے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ اس لئے دھوپ میں سن گلاسز کا استعمال کریں جو الٹرا وائیلٹ ریز یا شعا عوں سے آنکھوں کو محفوظ رکھ سکیں۔ (آنکھوں کی ورزش کریں) آنکھوں کی ورزش بینائی کو بہتر بناتی ہے، روزانہ آنکھوں کو دائیں، بائیں اوپر اور نیچے حرکت دینے کی مشق کریں۔ (صفائی کا خاص خیال رکھیں) آنکھوں کا گندے ہاتھوں سے چھونے سے گریز کریں اور اگر کانٹیکٹ لینز استعمال کرتے ہیں تو ا نہیں ہمیشہ صاف رکھیں۔ آنکھیں صرف دیکھنے کا ذریعہ نہیں بلکہ ہماری روح کا آئینہ ہیں۔ (تجاویز) اس سلسلہ میں آگاہی ویبینار بھی کیا گیا جس میں ملک کے مایہ ماز کارنیہ ٹرانسپلانٹ سرجن شامل تھے۔ پروفیسر صوفیہ فرخ پرنسپل قائداعظم میڈیکل کالج بہاولپو ر نے کہا کہ بہاولپور میں ہر سال ستر سے نوے لوگوں کا فر ی کارنیہ دیا جاتا ہے۔ جو امریکہ سے آتے ہیں اس کے علاوہ سری لنکا سے بھی کچھ عطیات آتے ہیں۔ پروفیسر رفیق خانانی نے کہا کہ آرگن ٹرانسپلانٹ کو ایک میڈیکل مضمون کے طور پر پڑھایا جانا چاہیے۔ کیونکہ نوجوان نسل کے اذہان ایسی باتیں قبول کرنے کیلئے زیادہ تیار ہوتے ہیں۔ دوسرا نوجوان نسل کو ہراول دستہ بنایا جائے۔ ڈونیشن کی مہم چلانے کیلئے، ا س کے علاوہ فیملیز اپنے آرگنز کو ڈونیٹ کر کے اپنی فیملی کیلئے مختص کر سکتے ہیں۔ کہ اگر کبھی ان کی فیملی کے کسی انسان کو کوئی مسئلہ پیدا ہو تو وہ محفوظ شدہ آرگن لے سکیں۔ پاکستان میں کارنیہ ٹرانسپلانٹ 1960
ء کی دہائی میں بالکل نہیں تھا۔ یہ کام پھر 1970ء میں شروع ہوا اور شروع میں سری لنکا سے کارنیہ آنے شروع ہوئے، کیونکہ سری لنکا میں بعد از مرگ آنکھیں عطیہ کرنا ایک قومی عادت ہے، پہلے بھی مشکلات تھیں اور اب بھی چیلنجز ہیں، کراچی میں بھی کام ہوتا رہا ہے۔ پاکستان میں کارنیہ کا پہلا ٹرانسپلانٹ کراچی کے سپنسر آئی ہسپتال میں ڈاکٹر ایم ایچ رضوی نے کیا جس میں سری لنکا سے ملے آنکھ کے عطیے کا استعمال کیا گیا۔ ڈاکٹر واصف قاضی نے کہا کہ سوسائٹی کی آگاہی پر بہت کام ہوتا ر ہا ہے لیکن اس سے زیادہ اس کو قبولیت اور رضا مندی زیادہ ضروری ہے کیونکہ وصیت کرنے والا تو کر جا تا ہے لیکن اس کی فیملی بروقت اطلاع نہیں دیتی۔ انسان کے مرنے کے بعد چونکہ ہمارے پاس آرگن نکالنے کا وقت کم ہوتا ہے یعنی مرنے کے آٹھ گھنٹے کے اندر اندر محفوظ کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے لواحقین کا آن بورڈ ہونا اور ان کو بروقت مطلع کرنا اہم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ پیغام بھی عام کرنا چاہیے کہ جب ہارویسٹنگ کیلئے سیمپل لینا ہوتا ہے تو پوری باڈی کو نقصان نہیں پہنچتا۔ اور معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کارنیہ ہارویسٹ کرنے کیلئے لیا گیا ہے یا نہیں، ڈاکٹرز کو لفظ آنکھ نکالنا نہیں کہنا چاہئے …. جو سوسائٹی پر برا اثر ڈالتا ہے ….. اس کو ڈونیشن کہا جائے۔ صرف ایک پیغام کو عام کیا جا ئے کہ آنکھ کی پتلی کا عطیہ دیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بتایا جائے کہ قانونی رکاوٹ نہیں ہے، اسلامی نظریاتی کونسل نے اس کے بارے میں مکمل قانون سازی کی ہوئی ہے کہ کارنیہ بعد از مرگ وصول کیا جا سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس کے اندر کسی قسم کی مالی منفعت یا تجا رت کا پہلو موجود نہ ہو۔ او ر خالصتاً رضاکارانہ کام ہو، اس کے علاوہ یہ پیغام عام کیا جائے کہ ڈونر کا عطیہ بعد از مرگ ثواب اس کے کھاتے میں لکھا جائے گا۔ کیونکہ اس نے کسی کی زندگی بچائی ہے جو ثواب کا کام ہے کہ کسی نابینا کو بینائی دینے کا ا جر خدا تعالیٰ بعد از مرگ اسے دے گا۔ سری لنکا میں اور دنیا سے اعضاء کے عطیہ کے تناظر میں ”آپٹ آؤٹ“ کا قانون ہے جس کا مطلب ہے کہ افراد کو فعال طور پر اور ر ضاکارانہ طور پر عطیہ دہندگان کی رجسٹری کے ذریعے یا اپنے ڈرائیور کے لائسنس پر بیان دے کر۔ یہ ایک”آپٹ آؤٹ“ سسٹم سے مختلف ہے۔ جہاں افرا د کو عطیہ دہندگان سمجھا جاتا ہے … جب تک کہ وہ واضح طور پر انکار نہ کریں۔ شناختی کارڈ میں ایک خانہ بنایا جائے اور لکھا جائے کہ یہ آرگن ڈونر ہے تاکہ اس کے مر نے کے بعد اس کے ورثا آرگن ڈونیشن میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔ اس کے علاوہ علماء کو بھی تعاون کیلئے کوشش کرنی چاہئے اور نماز جنازہ پڑھانے والے کو بھی کہا جائے کہ وہ آرگن ڈونیشن کے بارے میں خوف کو کم کریں۔ پروفیسر سلطان آف فیصل آباد کا پیغام تھا کہ ہمیں کام شروع کرنا چاہئے ….. زندہ ڈونر وہ ہیں جو مر رہے ہیں او ر اپنے آرگن ڈونیٹ کر دیں اور ڈیسیز ڈ ونر وہ ہوتے ہیں کہ لاوارث
مردہ سے آر گن لئے جائیں …. کوئی سسٹم بنا کر یا آ رگنازیشن بنا کر کام شرو ع کر نا چاہئے۔ پروفیسر صوفیہ فرخ نے کہ ہم سب کو ڈونیشن دینی چاہئے سوسائٹی کا ویو پوائنٹ تبدیل کرنے کیلئے یہ کوشش کرنی چاہے اور ہمیں اپنے لیول پر کوشش کرنی چاہئے کہ آگاہی عوام اور سوسائٹی کو اس مہم میں شامل کر کے تیار کریں۔ آنکھوں کا عطیہ دینا ایک زندگی بدلنے والا عمل ہے جو ا نسانیت کیلئے نیکی اور محبت کا مظہر ہے….. اس کے ذریعے نہ صرف ایک فرد کی بصارت بحال کی جا سکتی ہے بلکہ پوری کمیونٹی کی زندگی میں بہتری لانے کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ ہمیں اس عمل کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا اور دوسروں کیلئے امید کی کرن بننے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ تاکہ ہم ایک بہتر اور زیادہ ہمدرد معاشرہ تشکیل دے سکیں۔ حکومت کو ایک قانون بنانا چاہئے جس کے مطابق عطیہ کے عمل کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ وقت او ر مناسب عمل کے تحت ہر وصیت کرنے والے کا کارنیہ اکھٹا کیا جا سکے تاکہ اس کا مناسب استعمال کیا جا سکے۔