Warning: Undefined variable $forward in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 78

Warning: Undefined variable $remote in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 84

آوارگی میں حد سے گزر جانا چاہے۔ لیکن کبھی کبھار تو گھر جانا چاہے

انٹرویو…..عائشہ شفیق

مشہو ر غزل کے رائٹر، نامور شاعر حسن عباس رضا کا خصوصی انٹرویو
شاعر ذرا حساس طبیعت کے ہوتے ہیں …. وہ دوسروں کے دکھ درد اور تکالیف کو زیاد ہ محسوس کرتے ہیں اور اسی کیفیت کو اپنے لفظوں میں قلم کے زریعے صفحہ قرطاس پر اتارنے کا ہنر جانتے ہیں۔ شاعری تو اللہ کی طرف سے عطا کردہ خوبصورت تحفہ اور حسین احساس اور کیفیت کا نا م ہے ……

شعری انداز ہی شاعر کو دوسروں سے منفرد بنا تا ہے۔ ان خوبصورت خیالات کا اظہار خوش گفتار …..خوش لباس…. خوبرو شخصیت کے مالک ملکی اور غیر ملکی نامو ر شاعر حسن عباس رضا نے ہمیں دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو کے دوران کیا۔

حسن عباس رضا کی شاعری کا ا ندازِ بیان انتہائی دلاآویز اور دلفریب ہے ….. حسن عباس رضا نامور شاعر ہونے کیساتھ ڈرامہ رائٹر بھی ہیں اور سابق ڈائریکٹر پرفارمنگ آرٹس (موسیقی، ڈرامہ، رقص) رہ چکے ہیں۔ حسن عباس رضا خود بھی خوبصورت آواز کے مالک ہیں، شوقیہ گنگنا بھی لیتے ہیں۔ حسن عباس نے اپنی منفرد شاعری اور منفرد اندازِ بیان کی بدولت ملکی اور غیر ملکی شہرت کی بلندیوں کو چھوا …… خاص کر مشہور گلوکارہ منی بیگم نے حسن عباس رضا کی لکھی ہوئی غزل ”آوارگی میں حد سے گزر جانا چاہے ….. لیکن کبھی کبھار تو گھر جانا چاہے“۔ نے دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔ جو غزل آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تاز ہ ہے اور کانوں میں رس گھولتی ہے۔ حسن عباس رضا سے کیا گیا خصوصی انٹرویو نذر قارئین ہے۔

س:۔ سر کیا منی بیگم کے علاوہ بھی اور گلوکاروں نے آپ کی لکھی غزلیں اور گیت گائے ؟
ج:۔ جی بالکل ! حمیرا چنا، شوکت علی مرحوم، ندیم عباس، میر ے لکھے گیت گا چکے ہیں۔ پاکستان کے معروف گلوکار خلیل حیدر نے میری لکھی غزل ”فون پر اسکی باتیں اس کے قہقہے اچھے لگتے ہیں …… پل دو پل سہی مگر رشتے اچھے لگتے ہیں“۔ اور بھارت کے کئی گلوکار میری لکھی غزلیں اور گیت گا چکے ہیں۔ بھارت کے معروف گلوکار سنجیو مسافر نے میری لکھی غزل عمدہ کمپوزیشن میں گائی ہے۔ ”میں یہ سوچتا ہوں …. تجھے اتنا سوچتا کیوں ہوں“ اور ایک غزل ”ہوا کی زِد پہ دھرا ہے چراغ ِ دل صنما ….. سو اس سے پہلے کہ بجھ جائے آ کے مل صنما“ گا چکے ہیں۔
س:۔ سر آپ نور جہاں، غلام عباس اور د یگر فنکاروں کو قریب سے جانتے ہیں ….. کیسے لوگ تھے کیسا ماحول تھا ؟

ج:۔ بہت با کمال لوگ تھے۔

خاص کر نور جہا ں تو گلوکارہ کے علاوہ بحیثیت انسان بہت عمدہ شخصیت تھیں۔ اور اس وقت کا ماحول بھی بہت خوبصورت تھا مقصد یہ کہ لوگ سنجیدہ اور سیکھنے والے تھے۔ ایک تہذیب اور وقار کو مد ِ نظر رکھا جاتا تھا۔ بڑوں کی عزت کی جاتی تھی۔
س:۔ آپ نے غزل، شاعری کے علاوہ کچھ اور بھی لکھا؟
ج:۔ 10 سال پہلے ڈرامے بھی لکھا کرتا تھا۔ پی ٹی وی کیلئے ڈرامے کافی لکھے۔ پی ٹی وی کیلئے میرا لکھا گیا ڈرامہ ”نیند“ ناظرین میں بہت پسند کیا گیا ۔ ٹی وی کیلئے گیت بھی لکھے ایک گیت کافی مشہور ہوا ”اہل ِ قلم“ کے زیر اہتمام ایک ادبی تقریب منعقد ہوئی تھی ……. اس تقریب میں ’’ہم خواب سجانے والے ہیں ….. ہم گیت جگانے والے ہیں“۔ یہ میرا لکھا ہوا گیت سکولوں کے بچوں نے گایا تھا۔ اس گیت پر اس وقت کے صدر ممنون حسین نے مجھے صدارتی ِ ایوارڈ سے نوازا

تھا۔
س:۔ دنیا بھر کے ممالک میں آپ کا جا نا رہا ہے، بھارت میں کسی گلوکار کیساتھ دوستی بھی ہے آپ کی ؟
ج:۔ ویسے تو دنیا بھر کئی ممالک کے کلچرل اور مشاعروں میں شرکت کیلئے جانا ہوتا تھا۔ فنکاروں کو باہر کے ممالک میں پرفارمنس کیلئے لیکر جاتا رہا ہوں۔ بھارت میں بھی کئی دورے کر چکا ہوں …. شاعر کا تو پیغام ہی محبت اور دوستی ہے ….. بھارت میں نامور گلوکار گلزار اور امرتا پریتم سے میری بہت دوستی ہے۔ ان سے میری ابھی بھی فون پر گپ شپ

ہوتی رہتی ہے۔
س:۔ سر آپ کن کن ممالک کے دورے کر چکے ہیں؟
ج:۔ ویسے تو ا مریکہ میں بھی 10 سال ملازمت کے سلسلے میں رہا ہوں۔ ویسے تقریبات اور دیگر فنگشنز میں شرکت او ر ثقافتی شوز کے سلسلے میں امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، انگلینڈ، بھارت، ایران، کوریا، چین، بنگلہ دیش، دبئی، اور سعودی

عرب جا چکا ہوں۔
س:۔ سر یہ بتایئے آج کے دور میں وہ کلچر اور آرٹ نہیں رہا ….. جیسے پہلے دور میں تھا اس وقت کلچرل ایونٹ بہت منعقد ہوتے تھے۔ اب کلچرل سرگرمیاں ماند پڑتی جا رہی ہیں ؟
ج:۔ آجکل کا جدید دور ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا دور آ گیا ہے …… دنیا ساری سمٹ کر سوشل میڈیا میں آ گئی ہے ….. ٹی وی، ریڈیو اور اخبارات کی اہمیت کم ہو گئی ہے …… اب پل پل کی صورتحال آپ کو انٹر نیٹ، موبائلز میں مل جاتی ہے۔ کچھ ملکی حالات کا اثر بھی اداروں پر پڑا جس کی وجہ سے کلچرل سرگرمیاں ماند پڑ گئیں۔
س:۔ مشاعروں اور ادب کی دیگر سرگرمیاں بھی کم ہو گئیں ؟

ج:۔ مشاعرے اور ادب کی دیگر تقریبات کا انعقاد تو ہوتا رہتا ہے …. پاکستان اکاد می ادبیات کا ا دارہ ادبی تقریبات اور مشاعروں کے انعقاد میں ہمیشہ سے متحرک رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بیشمار ادارے ادب کے فروغ میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔
س:۔ نئے آنیوالے شاعروں کے بارے میں کیا کہیں گے ؟
ج:۔ آج کے دور کے شاعروں میں وہ سنجیدگی نہیں …. عجیب عجیب لوگ آ گئے ہیں ….. عامیانہ پن آ گیا ہے ……. شا عری کو سنجیدہ نہیں لیا جا تا ….. اچھل کود والے لوگ اور پرفارمر زیاد ہ آ گئے ہیں۔ نئے شاعروں نے اگر آگے بڑھنا ہے اپنی پہچان اور مقام بنانا ہے تو شاعری کے رموز و اوقاف کو سیکھیں …. مطالعہ، تجربہ، مشاہدہ ہی شاعری اور آپ کی شخصیت کو نکھارتا اور پالش کرتا ہے۔ شارٹ کٹ کے راستے نہ ڈھونڈیں تو بہتر ہے …… محنت کر کے جو لو گ اپنا مقام بناتے ہیں …… ان کی اپنی ایک عزت اور پہچان ہوتی ہے۔
س:۔ شاعری کیلئے تعلیم یافتہ ہونا ضرور ی ہے ؟
تعلیم، مطالعہ ویسے تو آپ کی شاعری، شخصیت کو نکھارتی ہے۔ لیکن بلے شاہ، وارث شاہ اور غالب اور دیگر شعراء کہاں تعلیم یافتہ تھے۔ شاعری کیلئے خاص سوچ، وژن کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن آج کے دور میں تو تعلیم کے بغیر معاشرے میں جینا مشکل ہے …. دنیا کا مقابلہ کرنے کیلئے ….. مختلف چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔
س:۔ آ پ خود بھی مختلف فنگشنز میں گاتے نظر آتے ہیں …… آپ خود گلوکاری میں کیوں نہیں آئے ؟
ج:۔ دیکھیں ! لے اور سرُ تو شاعر کے اندر موجود ہوتا ہے …… شوقیا گنگناتا رہتا ہو ں …. لیکن ترجیح میری شاعری ہی رہی۔

س:۔ آپ اپنی شاعری اور ادبی خدمات کی تفصیل بتائیں گے ؟
ج:۔ میر ی شاعری اور ادبی خدمات پر تین ایم فل تھیسز ہو چکے ہیں۔ جبکہ پی ایچ ڈی تھیسز پراسس میں ہے۔
مطبوعات۔
خواب عذاب ہوئے …. نیند مسافر ….. تاوان ….. دریا تمام شد …..عشق بدوش …. الماریوں میں بند خواب۔ جو کتابیں مرتب کی ہیں۔ ”پاکستان کے بہترین افسانے“ …. ہند وستان کے بہترین افسانے ….. فسادات کے افسانے ….. سراپا کی شاعری …. خیابان …. سات شمارے۔
س:۔ ضیاء الحق کے دور میں آپ گرفتار ہوئے کیا واقعہ تھا ذرا بتائیں گے ؟

ج:۔ میں نے ضیاء الحق کے جابرانہ اور آمرانہ دور میں ان کے خلاف نظمیں لکھیں، جو میر ے میگزین ”خیابان“ اور میری پہلی کتاب ”خواب عذاب ہوئے“ میں شائع ہوئی تھیں۔ جنر ل ضیاء نے اپنی حکومت کے تسلسل کیلئے ایک ریفرنڈم کروایا تھا۔ جس کے خلاف میں نے اشعار لکھے تھے۔ ان کی پاداش میں مجھے گرفتار کر لیا گیا تھا اور ہتھکڑی لگا کر صدر بازار راولپنڈی میں پیدل گھمایا گیا اور تما م بک اسٹالز سے وہ کتابیں اٹھا لی گئی تھیں۔ قید کے دوران ایک نظم لکھی تھی

جس کی بناء پر مزید ایک مقدمہ بنایا گیا۔
س:۔ آخر میں کیا پیغام دینا چاہیں گے ؟
ج:۔ ویسے تو ”پاکستان اکاد می ادبیات ادارہ“ ملک کے مستحق شاعروں ادیبوں کی مالی معاونت کرتا ہے …. لیکن بیشما ر مستحق شا عر و، ادیب جو اس ملک کا اثاثہ ہیں …. بہت سارے مسائل سے دوچار ہیں حکومت کو چاہے ان کی مستقل بنیادوں پر مالی معاونت کرے۔ اور ادب، کلچر ل تقریبات کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کرے …. تاکہ ہمارے کلچرل، آرٹ اور ادبی سرگرمیاں بحال ہوں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں