Warning: Undefined variable $forward in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 78

Warning: Undefined variable $remote in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 84

خدارا بچوں کو سوشل میڈیا کے نشے کا عادی نہ بنائیں۔ ما ہرین کی رائے

آجکل سوشل میڈیا کے دور میں بچوں کی بڑھتی ہوئی موبائل میں دلچسپی او ر اس کے منفی اثرات سے کیسے بچایا جائے …. ان کے جارحانہ مزاج کو کیسے کنٹرول کیا جائے …. کیسے بہتر تربیت کی جائے ….. کیسے ان بچوں کی بیلنس پرورش کی جائے ۔۔۔ یہ ایک چیلنج ہے آجکل کے والدین کیلئے ۔ اس خاص موضوع پر ہم نے مختلف شعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے گفتگو کی جو نذر قارئین ہے۔

ماہر تعلیم، گورنمنٹ گر لز مدینہ ٹاؤن کالج کی سابق پرنسپل عابدہ فیاض نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہر شے جو ا نسان کے استعمال میں آتی ہے ….. اس کے فوائد اور نقصانات دونوں ہی ہوتے ہیں۔ بچپن سے ہی ہر بچے کو کسی بھی مستعمل چیز کی افادیت یا اس کے مضمرات سے آگاہی دینا ضروری ہوتا ہے….. یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہے کہ بچہ اپنی عمر کے لحاظ سے ان باتوں کو سمجھے گا۔ سوشل میڈیا کا یہ دور دنیا کے اندر ایک بہت بڑی تبدیلی کا دور ہے ….. یہ زمانہ مصنوعی ذہانت کا زمانہ ہے۔ آپ بچے کو اس تبدیلی …. اس ترقی سے نا آ شنا تو نہیں کر سکتے۔ ایسی صورت میں آپ کا بچہ دنیا کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائے گا۔ ایک وقت ہمارے بچپن کا تھا کہ ریڈیو سننے پر پابندی تھی لیکن جنہوں نے یہ پابندیاں لگائیں….. ان کے بچے تعلیم میں دوسرے لوگوں سے پیچھے رہ گئے۔ جنہو ں نے اپنے بچوں کو اجازت تو دی …. مگر کنٹرول کیساتھ۔ آج اگر ہم بچو ں کو تھوڑی احتیاط کیساتھ اجازت دیں تو بہتر ہو گا، یہ درست ہے کہ بچوں کے رویوں میں خطرناک رجحان پرورش پاتے ہیں۔ ان کے مزاج میں سختی، شدت اور برہمی زیاد ہ ہو جاتی ہے، کچھ بچوں کا والدین کیساتھ بھی رویہ سخت اور نافرمانی والا ہو جا تا ہے کیونکہ جو تشفی، سکون انہیں موبائل، ٹیبلٹ اور کمپیوٹر سے ملتی ہے وہ اس میں رتی برابر کمی برداشت نہیں کرتے۔ یہ ایک نشے کی طرح ان کو جکڑ لیتا ہے …. اب جبکہ سوشل میڈیا وسائل صرف بچوں کے نکتہ نظر سے نہیں بنائے جاتے۔ تو اس میں بڑوں والا مواد بھی ہو گا، جو بچوں کے دیکھنے سننے یا سمجھنے کا نہیں ہو گا۔ تو بچہ ا سے سمجھنے کی کوشش میں چڑا چڑا ہو گا …. اس کو بار بار دیکھے گا جو اس کے ذہن پر نقش ہوتا جائے گا اور بہت سی خرابیاں وہ عملاً کرے گا۔ پھر بھی اگر ایسے آلات سوشل میڈیا بچوں کے مطابق سے بنائے بھی جائیں …. تو بھی بنانے والوں نے پوری دنیا کے بچوں کیلئے کاروبا ری نکتہ نظر سے بنائے ہوں گے۔ جبکہ ہر ملک ہر قو م کی تہذیب اور معاشرت کے معیار فرق ہیں۔ مذہبی اقدار فرق ہیں ….. یہی فرق بچو ں کی تربیت میں بھی نمایاں

ہوتا ہے…. آپ انٹر نیٹ کو تو پا بند نہیں کر سکتے کہ آپ بچوں کو کیا د کھائیں اور کیا نہ دکھائیں۔ ماہر تعلیم عابدہ فیاض نے اپنی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ضرورت اپنے بچوں اور اپنے ماحول کو کنٹرول کرنے کی ہے…..بچوں کو انٹر نیٹ کے استعمال سے نہ روکا جائے، البتہ ان کیلئے وقت کا تعین کر دیا جائے اور اس دوران والدین ان کے پاس ہی رہیں ….. اور چیک کرتے رہیں کہ وہ کیا دیکھ رہے ہیں کارٹون یا دوسرے پروگرام دیکھتے ہوئے درمیان میں بہت سے غلط اشتہار آ جاتے ہیں، وہاں والدین کو پہلے سے ہی محتاط رہنا چاہے۔ عابدہ فیاض نے مزید کہا کہ میرا خیال ہے کہ ہفتے میں چھٹی والے دن ہی بچوں کو نیٹ استعمال کرنے کی اجازت دی جائے ….. بچوں کو اپنی دینی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں پڑھنے اور سننے کی عادت ڈالی جائے۔ آپس میں پہیلیاں پوچھنے اور بوجھنے کی عادت ڈالی جائے تاکہ وہ آپس میں بھی وقت گزاری کے عادی ہوں اپنے ساتھ انہیں گھومنے پھر نے لے جائیں۔ سیرو تفریح سے بچہ بہت کچھ سیکھتا ہے، خوش ہوتا ہے، بچوں کو جسمانی ورزش والے کھیل کھلائے جائیں، ان کی توجہ جسمانی ورزش اور کھیلوں کی طرف دلائی جائے۔ سوشل میڈیا بچوں میں autism ذہنی معذوری …. نظر کی کمزوری اور سستی کاہلی جیسے عوامل پیدا کرنے کا سبب بھی بن رہا ہے۔ بچہ سکرین پر انحصار کرتا ہے تو خود سوچنے کی صلاحیت سے رفتہ رفتہ محروم ہو جاتا ہے۔ یہ یا د رہے حدیث مبارکہ ہے کہ والد اپنے بچوں کو جو کچھ دیتا ہے اس میں بہترین تحفہ تربیت ہے۔ چنانچہ اصل محنت، مشقت والدین کی ہے اگر انہوں نے اپنے بچوں کو اپنی سہولت کی خاطر کسی بھی نشے کاعادی نہ بنائیں ان کیلئے خود کو نشہ بنائیں کہ وہ اسے الگ نہ کر پا ئیں۔ ان کیساتھ کھیلیں وہ کھیل جو انہیں پسند ہوں ان کے دوستوں کو عزت دیں …. ان سے پیار کریں دوستوں کے گھر والوں سے دوستیاں کریں ان کو سمجھیں۔
میانوالی کے نامور ڈاکٹر محمد ثقلین شاہ نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جتنا ممکن ہو سکے مائیں بچوں کو وقت دیں …. بچوں کے ساتھ ان کی پسند کے کھیل کھلیں ….. کچھ بچوں کی پسند کا بنائیں اور بچوں کو چھوٹے چھوٹے کام دیں۔ ان کو ساتھ شامل کریں ….. بچے سکول سے جیسے واپس آئیں ان کو اچھے سے خوش آمد ید کہیں۔ ان کو بتائیں آپ ان کا انتظار کر رہی ہیں۔ ا س کے ساتھ ساتھ بچوں کی پڑھائی کے معاملات میں دوستانہ رویہ رکھیں ان کیساتھ گپ شپ کرتے سکول کا کام کروائیں۔ موبائل کا ایک وقت رکھیں۔ ان میں آدھا گھنٹہ بچوں کیساتھ بیٹھ کر وہی کارٹون دیکھیں۔ بچوں کو جب یہ سب ملے گا تو بچے ….. اچھے بچے بن جائیں گے۔ ڈاکٹر ثقلین شاہ کا مزید کہنا تھا کہ والدین کو چاہے کہ خود بھی بچو ں کے سامنے اونچا بولنے ….. زیادہ موبائل کے استعمال سے گریز کریں۔ آج کے بچوں کو والدین کی

خاص توجہ چاہے ….. لیکن اس کی توجہ موبائل اور سوشل میڈیا لے رہا ہے۔ ماں کو چاہے کہ اپنے وقت کو اچھے سے استعمال کرے اور اپنا ہر کا م کرنے کا ایک اوقات کار بنائیں لیکن ترجیح بچے ہی ہونے چاہئیں۔
نیلمانا ناصر جو کہ یوکے کے شہر ناٹنگھم میں وہ ایک تعلیمی ادارے میں ٹیچر کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ نیلما نا ناصر ایک سوشل ورکر بھی ہیں….. اور سوشل میڈیا میں بھی کافی متحرک نظر آتی ہیں اور مثبت رول ادا کر رہی ہیں۔ انہوں نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کی بات ہو رہی ہے اور سو شل میڈ یا کی بات ہو رہی ہے …. ہم اس چیز سے چاہتے ہوئے بھی نہیں نکل سکتے …. سوچتے ضرور ہیں کہتے ضرور ہیں ۔ میڈیم مختلف ہو سکتا ہے لیکن ہر دور میں ضرور ت تو رہی ہے جب پہلے دور میں یہ موبائل وغیرہ کی ٹیکنالوجی نہیں تھی تب ہمارے بڑے کہا کرتے تھے کہ بچوں پر چیک اینڈ بیلنس رکھیں …. کہاں جا آ رہے ہیں ان پر نظر رکھیں … کن کو مل رہے ہیں …. اگر وہ اچھے لوگو ں سے ملیں گے اس طرح کے ہی اثرات ان پر پڑیں گے …. جن کی اخلاقی اقدار اور ویلیو ہوں گی۔ بچے ان سے اچھا سیکھیں گے۔

تب بھی یہی ہوتا تھا کہ بچوں کو ایسے مواد سے دو ر رکھا جائے جو ان کہ ناپختہ ذہنوں کیلئے نقصان دہ ہوں۔ پھر بچے جب ان اخترافات میں الجھ جاتے ہیں تو پھر بچے گھر و الوں کی بات دھیان سے نہیں سنتے۔ پھر ریڈیو، ٹی و ی آیا پھر بھی یہ خیال رکھا جانے لگا کہ ان کی ذہنی پرورش کیلئے اچھا ہو …. ان کو مثبت گا ئیڈ لائن دی جائے۔ اس میں دین و دنیا سب بیلنس ہو۔ نیلما نا ناصر کا ا س موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ بچے زیادہ سے زیادہ آپ کے زیرِ نگرانی ہوں …. باہر کی منفی طاقتیں ان پر اثر اندا ز نہ ہوں۔ اب چونکہ فون ایک ایسی ڈیوائس ہے جو سب کے ہاتھ میں ہے ….. فون اور انٹر نیٹ سے آپ بالکل بچوں کو کٹ آف تو نہیں کر سکتے …. بچوں کو اسلامک اور اخلاقی ویلیو سکھائیں …. ہم خود بچوں کیلئے رول ماڈل بنیں۔
عابد کما لوی جن کا تعلق لاہور سے ہے۔ عابد کمالوی سابق ڈائریکٹر محکمہ اطلاعات و ثقافت حکومت ِ پنجاب اور معروف کالم نگار، شاعر، ادیب ہیں اور سوشل میڈیا میں بھی ان کی شاعری اور ادبی گفتگو کے حوالے سے ایک پاکستان کا بڑا نا م ہے۔ ا ن سے ہم نے اس خاص موضوع پر گفتگو کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ موضوع بہت حساس اور نازک ہے سمارٹ میڈیا کے دور میں بچوں کی تربیت کیسے کی جائے جو ہمارے گھروں کا کلچر ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کرنا چا ہے ….. ہم موبائل سے بچوں کو دور تو رکھ نہیں سکتے۔ بچوں کیلئے ایسا موبائل ہو۔ اس میں صرف ایسی انفارمیشن ہوں جس میں ہمارا دین، ہمارا کلچر، ہماری احادیث اور قرآن پاک کے حوالے سے علم ہو۔ ہماری معاشرت ہمار ا آداب، سب ایسی چیزیں اس میں ہوں۔ ا گر نیٹ کی ساری

چیزیں اس میں موجود ہوں، بچہ تو ا نگلی کے ایک پور سے سب کھول سکتا ہے۔ اس میں ایسی چیزیں بھی بچے دیکھ سکتے ہیں …… جو بچو ں کو گمراہی کیطرف لیکر جا سکتی ہیں۔ بچوں کی دلچسپی کا جو ساماں ہے وہ ایک خاص ٹائم کے اندر اپنی نگرانی میں ان کو دیکھنے دیں ….. مفید انفارمیشن ان کو کھو ل کر دیں جو ان کو یونیورسٹیز لیول تک آگے بھی جا کر ان کے کام آ سکیں، اس میں یہ نہ ہو کہ بچہ 24 گھنٹہ موبائل میں ہی لگا رہے۔ تنہائی میں تو وہ بچے بہت کچھ دیکھ سکتے ہیں ….. جس میں اس طرح تو بچوں کے ذہن بری طرح متاثر ہوں گے۔ والدین کو چاہے اس معاملے میں بالکل غفلت نہ برتیں۔ بہت بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ یہ جب بچے موبائل استعمال کر رہے ہوں تو نیٹ والدین کے کنٹرول میں ہوں۔ اس وقت نیٹ بھی بند کر دیں۔

”اٹامک انرجی“ ڈی جی خان کے 7 ریجن کے سابق ڈی جی آفتاب دانش ان کا تعلق بھی لاہو ر سے ہے۔ اس موضوع پر ہم نے آفتاب دانش سے خصوصی گفتگو کی ان کا کہنا تھا کہ ظاہر ہے کہ آج کا دور پہلے دور سے کافی مختلف ہے۔ پہلے دور میں سوشل سرگرمیاں زیاد ہ تھیں مثلاً فیملیز کا آپس میں ملنا ملانا بھی زیادہ تھا۔ رشتوں کا بچوں کو بہت اچھی طرح علم ہوتا تھا پھو پھو، خالہ وغیرہ سب رشتوں کا احترام او ر ان تمام رشتوں کا بچوں کی شخصیت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے تھے۔ آجکل ان رشتوں کو بھی منفی کر دیا گیا ہے۔ رشتہ داروں کے خلاف گفتگو بچوں کے سامنے ایک خاص موضوع بن چکا ہے۔ اس سے بچوں کے ذہنوں اور شخصیت پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے نکال دی ہے۔ بچوں کی فزیکل سرگرمیاں تقریباً ختم ہو کر رہ گئی ہیں …. بچے موبائل کو لیکر کمفر ٹ زون میں چلے جاتے ہیں۔ زیادہ موبائل کے استعمال سے ان کی ذہنی اور جسمانی دونوں نشوونما پر نقصا ن ہو رہا ہے ….. بچوں کا وزن بھی بڑھتا جا رہا ہے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحتیں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ یہ تو والدین کا فرض ہے کہ گھروں کے ماحول کے اندر اصول، ضابطے بنائیں ان کے اوپر سختی سے خود بھی عمل پیرا ہوں …. جب والدین خود بھی موبائل میں مصروف رہیں گے اور اپنے آپ کو ریلیکس کرنے کیلئے بچوں کو بھی موبائل دے دیں گے…. تو پھر بچوں کے جو نقصا نات کے ذمہ دا ر یقینا والدین ہی ہونگے وہی اس کا حل بھی تلاش کریں۔ اس لئے والدین کو چاہے بچوں کیلئے موبائل کا بھی ایک ٹائم سیٹ کریں اس ٹائمنگ کے اندر کچھ دیر ان کو موبائل دیکھنے دیں۔ جیسے جیسے بچے کچھ بڑے اور میچو ر ہو جائیں …. پھر موبائل کی ٹائمنگ بھی بڑھا د یں پھر

اتنا ایشو نہیں ہے۔
کوکنگ ایکسپرٹ اور ماہر نفسیات سلمیٰ رشید کا اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آجکل کے جدید اور سوشل میڈیا کے دور میں بچوں پر بے جا پابندیاں تو نہیں لگا سکتے ….. لیکن اس سب کے باوجود بچوں کو

صحت مند اور مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب ضرور کر سکتے ہیں …… تاکہ سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے بھی بچ سکیں۔ ہم سو شل میڈیا میں آنیوالے سیلاب کو تو نہیں روک نہیں سکتے …. بچوں کی اچھی تربیت کیلئے اپنے گھروں کے ماحول، ڈسپلن کو تو ضر ور بہتر کر سکتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ہماری اقدار، روایات اور مذہبی طور طریقوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالیں، ہمیں اپنے ارد گرد کے ماحول کو اس طرح اپنا نا ہو گا کہ بچے موبائل فون سے دو ر رہتے ہوئے ان ساری چیزوں کو اپنا سکیں۔ جب بچہ بولنا سیکھتا ہے …. سیکھنا تو وہ تب سے ہی شروع کر دیتا ہے۔ دراصل ہم ہر چیز پر پہلے خود عمل کریں …. ادب اور تہذیب کو بروئے کار لاتے ہوئے لڑا ئی جھگڑو ں سے گریز کیا جا ئے…. ہر ر شتے کا احترام ہو …… بچوں کے سامنے مثبت گفتگو کی جائے۔ سلمیٰ رشید کا مزید کہنا تھا کہ رات سوتے و قت بچوں کو مسنو ن دعائیں ….. انبیاء کر ام کی کہانیاں سنائیں۔ ہر عمل ایک دن کا نہیں ہونا چاہے اس عمل کو مسلسل دہرائیں۔ ا ن سب چیزوں کو بہتر بنانے میں سمجھتی ہوں کہ ماں بہترین اور اہم رول ادا کر سکتی ہے۔ موبائل کیوجہ سے بچے ایک کلک پر چیزیں دیکھنا شروع کرتے ہیں انہیں پسند نہیں، تو فوراً دوسری ویڈیو لگا لیتے ہیں ….. سکینڈ و ں میں وہ بار بار تبدیل کرتے ہیں اسطرح بچہ کچھ دیر ایک چیز کو دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ بچوں کو آپ خود کوئی ایک ویڈیو ڈاؤن لوڈ کر د یں۔ ویسے تو میرے خیال میں موبائل کی جگہ کوئی بڑی اسکرین جیسے کمپیوٹر، ٹی و ی پر بچے دیکھیں ایک تو آپ کی نظروں کے سا منے بچے ہونگے

کہ آپ کے علم میں ہو گا بچے دیکھ کیا رہے ہیں۔ دوسرا ان کی نظر وغیرہ بھی متاثر ہونے کا خدشہ نہیں ہو گا۔ کمپیوٹر کو بھی ایسی جگہ پر رکھیں جہاں آپ خود بھی بچوں کو مانٹیر کر سکیں۔ اور بچے ایسی چیزیں دیکھیں جس سے بچے کچھ نہ کچھ سیکھنے کے عمل سے گزرتے رہیں، جیسے پینٹنگ، ڈرائنگ، کٹنگ، کر افٹ، سائنس کے چھوٹے چھوٹے تجربات ….. یہ سب کرنے میں والدین بچو ں کیساتھ شامل ہوں۔ بچوں کو اپنے ساتھ نماز کا عاد ی بنائیں ….. چھٹی والے دن بچوں کو اپنے ساتھ باہر گھمانے پھرانے لے جائیں ….. گاڑی میں بچوں سے گپ شپ کرتے جائیں …. بچوں کی باتوں کو توجہ اور دلچسپی سے سنیں۔ بچوں کو زیادہ سے زیادہ وقت دیں ….. اپنی آسانی اور سکون کیلئے بچوں کی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو ضائع مت کریں۔ بچے سکول سے واپس آئیں ان کی دن بھر کی مصروفیات پر ان سے گفتگو کریں۔ جتنا زیاد ہ آپ بچوں میں invlove رہیں گے۔ بچے ہر طر ح کی منفی سرگرمیوں سے بھی بچیں رہیں گے۔ بچوں میں چڑا چڑا پن اور جارحانہ مزاج بھی پیدا نہیں ہو گا ا ور بچوں کی خوبصورت اور اعتماد سے بھر پور شخصیت بنے گی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں