Warning: Undefined variable $forward in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 78
Warning: Undefined variable $remote in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 84
خشک آلو بخارے کی رنگین داستان
تحریر ۔ پروفیسر عابدہ فیاض سابق پرنسپل گورنمنٹ گرلز مدینہ ٹاؤن کالج فیصل آباد
آلو بخارے کی چٹنی شادی بیاہ کے کھانوں میں آج بھی پسندیدہ چیزوں میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ گھروں میں شوق اور کثرت سے استعمال ہوتی ہے۔ بہت سی بڑی اور مشہور کمپنیاں آلو بخارہ کی چٹنی باقاعدہ جام کی طرز پر فروخت کیلئے پیش کر ر ہی ہیں۔ چٹنی بنانے کیلئے یا کھانوں میں دیگر طریقوں
میں استعمال کیلئے جو خشک آلو بخارہ استعمال کیا جاتا ہے …… وہ قدرے ہلکے بھورے رنگ کا ہوتا ہے ….. جب بھی کبھی فروخت کنندگان سے اس کی بابت دریافت کیا تو جواب ملا ….. ایران سے آتا ہے۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ جان سکیں کہ آخر پاکستان میں اس معیار کا خشک آلو بخار ہ کیوں نہیں بنتا ….. یا بنایا جاتا۔ تو کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ آخر کا ر ہم نے خود آلو بخارہ خشک کیا …. لیکن وہ بالکل گہرے بھورے…. بلکہ سیاہی مائل رنگ کا بنا …. ہم نے کئی بار کوشش کی …. ہر بار یہی نتیجہ نکلا۔ ایران کے معیار کا خشک آلو بخارہ نہیں بنا پائے۔ ہمیں لگتا تھا جیسے ایران کے لوگ اس کا رنگ ہلکا بھورا رکھنے کیلئے کوئی خاص تکنیک یا کو ئی خاص کیمیائی مرکب کا استعمال کرتے ہیں۔ جستجو جاری رہی ….. کہتے ہیں لگن سچی ہو تو…. قدرت رہنمائی میں بخل سے کام نہیں لیتی ….. ایک روز ہم نے ایران میں
موجود ایک دوست سے ایک اور کام کے سلسلے میں مدد کی درخواست کی۔ انہوں نے ایک ایرانی ایپ کے متعلق بتایا جس پر بہت مواد ویڈیوز کی صورت …. رہنمائی کیلئے دستیاب تھا۔ ہم نے وہاں خشک آلو بخارہ کے متعلق ویڈیوز تلاش کیں …. دیرینہ مسئلہ چند ساعتوں میں حل ہو گیا۔ جو آلو بخارہ خشک کرنے کیلئے استعمال کیا جا رہا تھا …. وہ یہ سرخ آلو بخارہ جو ہم کھانے کیلئے استعمال کرتے ہیں …. نہیں تھا بلکہ وہ سفید آلو بخارہ تھا …. جو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ سفید آلو بخارہ خشک ہو کر ہلکے بھورے رنگ کا ہوتا ہے …. جبکہ سرخ آلو بخارہ خشک ہو کر سیاہی مائل گہرا بھورا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ سفید آلو بخارہ کہاں سے آئے …. جسے ہم خشک کر کے بازار میں فروخت کیلئے پیش کریں اور ایران سے درآمد کم ہو۔
سوات کے نوا ح سے ایک مہربان دوست نے رابطہ کیا ….. ان کا کہنا تھا کہ ہماری وادی میں بہت سا پھل پیدا ہوتا ہے …. لیکن ذرائع آمدورفت نہ ہونے کے باعث شہروں تک پہنچایا نہیں جا سکتا۔ جتنا مقامی لوگ کھا لیتے ہیں …. باقی سارا ضائع ہو جا تا ہے اس کا کوئی حل بتائیں۔ ہم نے کہا آپ کے لوگوں کو ڈی ہائیڈریشن اور محفوظ کرنے کے دوسرے ہنر سکھا دیتے ہیں۔ ان سے دریافت کیا کہ کیا آپ کے علاقے میں سفید آلو بخا رہ پیدا ہوتا ہے …. کبھی دیکھا ہو ؟ کہنے لگے جی بہت ہوتا ہے ….. خود رو ہوتا ہے ….. لوگ
کھاتے نہیں بس پھل لگتا ہے اور ضائع ہو جاتا ہے۔ آہ …. میرے دیس کے سارے لوگو جس بیش قدر نایاب شے کو ہم سال بھر سے تلاش کر رہے ہیں …. وہ آپ کے ہاں خودرو ہے اور ضائع ہو رہا ہے۔ اللہ اللہ! اس کے بعد قبائلی علاقوں کی بہتری کیلئے کوشاں ایک دوست سے بات ہوئی۔ انہوں نے یہ کہہ کر مزید حیران کر دیا کہ ان کے ہاں قبائلی علاقوں میں اسی فیصد آلو بخا رہ سفید ہی پیدا ہوتا ہے ….. جس کا ہمارے پاس کوئی استعمال نہیں۔ اور مزے کی بات یہ کہ ہم سب ہر وقت وسائل کا رونا بھی روتے رہتے ہیں اور حکومتوں کو بھی کوستے رہتے ہیں کہ ہمارے لئے کچھ نہیں کرتیں۔ جبکہ وسا ئل ”خود رو“ اگ اگ کر ضائع ہو رہے ہیں ….. ٹیوٹا کے پی کے سے بھی اس پر بات ہوئی ہے اور دیگر مختلف فو رمز پر بھی۔ انشاء اللہ اگلے سیزن میں لوگوں کو بڑے پیمانے پر سفید آلو بخارہ خشک کر کے ایرانی معیار کا خشک آلو بخارہ بنانا سکھایا جائے گا ….. اور اگر اللہ نے چاہا تو چند سال میں ہم خشک آلو بخا رہ درآمد نہیں برآمد کر رہے ہوں گے۔