Warning: Undefined variable $forward in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 78
Warning: Undefined variable $remote in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 84
سیلاب زدگان کی خدمت میں سرگرم ڈاکٹر میاں بیوی
انٹرویو : عائشہ شفیق
دکھ ، تکالیف ، مصائب زندگی کاحصہ ہیں ۔ زندگی کے نشیب وفراز میں خوشیوں اورغموں کاسنگم ایسے ہی ہے جیسے ہر رات کے بعد صبح کی روشنی پھوٹتی ہے، اور پھول بھی تو کانٹوں پر ہی کھلتے ہیں۔ خزاں کے بعد بہار جنم لیتی ہے۔ ایسے میں انسانوں پرمصائب ، قدرتی آفات پہاڑ بن کر ٹو ٹ پڑیں ،انسان ریزہ ریزہ ہوکر بکھر جائیں توکوئی تو ہوگا انھیں سمیٹنے والا، کوئی تو ہوگا ان کے زخموں پر مرہم رکھنے والا۔ آپ کے پاس بہت وسائل ہیں بھی نہیں لیکن اچھی بات کہنا مسکرا کر بات کرنا دکھ میں اچھے الفاظ کااظہار کرنا ، دکھی کو تسلی اور تشفی دینا بھی صدقہ جاریہ ہے ۔ یہ دکھی اور غم زدہ انسان کے دکھوں کے بوجھ کوہلکا کردیتا ہے۔ اس سے ہمت اورحوصلہ مل جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں بڑی بڑی باتیں کرنے والے اوربڑھکیں مارنے والے لوگوں کی تعداد کم نہیں ہے ۔ عملی طور کارخیر میں مصیبت زدہ انسانوں کی مدد ، ہر دکھ اور گھڑی میں ان کے ساتھ عملی طور پر مثال بن کر سامنے آنا جہاد سے کم نہیں۔ایسے میں میانوالی شہر کے رہائشی ڈاکٹر محمد ثقلین شاہ اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر صباحت ثقلین گزشتہ23 سال سے اپنے مقدس شعبے سے تو وابستہ ہیں ہی ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ دونوں میاں بیوی اپنے علاقہ ، اپنے شہر میں نہ صرف اپنے غریب ، اور دکھی لوگوں کے غم وخوار بھی ہیں ملک میں جس طرح سیلاب کی قیامت ٹوٹی، اس آفت زدہ صورت حال میں دونوں میاں بیوی بہت سے لوگوں کے لئے ایک شاندار مثال بن کرسامنے آئے۔ انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کی5 تحصیلوں میں جس طرح کام کیا، اس کی مثال کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
گزشتہ دنوں ان سے گفتگو ہوئی ، جس کے نتیجے میں ہمیں ان کی خدمات کا بخوبی علم ہوا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان سے ہونے والی گفتگو آپ کے علم میں بھی آئے۔
س : آپ دونوں نے کہاں سے تعلیم حاصل کی؟
ج : میں پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد سے گریجو یٹ ہوں،اب گزشتہ23سال سے میانوالی شہرمیانہ علاقہ میں اپنے ایک شہید دوست ڈاکٹر سجاد کے نام پر کلینک چلا رہا ہوں اور فیملی فزیشن کے طورپر اپنے فرائض انجام دے رہا ہوں ۔
اس موقع پر ڈاکٹر صباحت ثقلین نے بتایا کہ وہ نشتر میڈیکل کالج ملتان کی گریجویٹ ہیں اورگائناکالوجسٹ ہیں۔ اس طرح ہم دونوں دن رات مریضوں کی دیکھ بھال اوران کے علاج کیلئے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔
س : ڈاکٹرز صاحبان ! سنا ہے کہ جب سے آپ کی شادی ہوئی، یا یوں بھی کہہ لیں جب سے آپ میڈیکل شعبے میں عملی طور پر داخل ہوئے تب سے آپ سوشل سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں ، غریب اورضرورت مند لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ اس کی کیا تفصیل ہے؟
ج : جی ! ہم بحیثیت انسان کوشش ضرور کررہے ہیں ، باقی اللہ کی ذات ساتھ دینے والی ہے۔ ہم اپنے علاقہ میانہ میں جس قدر ہم سے ہوسکتا ہے کچھ مخصوص بیوہ ، ضرورت مند خواتین کو ماہانہ وظیفہ اور راشن دیتے ہیں ۔ اسی طرح کچھ گھروں ، فیملیز کی مکمل کفالت کی ذمہ داری بھی ادا کرتے ہیں ۔ اسی طرح یتیم بچوں کی دیکھ بھال اوردیگر معاملات کو جہاں تک ہم سے ہوسکتا ہے ، دیکھتے ہیں۔ حتیٰ المکان کوشش ہوتی ہے کہ ہم اپنی یہ ذمہ داری پوری کرسکیں ۔ اسی طرح غریب بچیوں کی شادیوں کے اخراجات اٹھاتے ہیں۔
س : ڈاکٹر صاحب!آپ نے سوشل میڈیا پرPMC(Face) کے نام اور ( حروف ) کے نام سے دو گروپس بنائے ہیں، اس کو آپ کافی فعال انداز میں چلارہے ہیں ان کامقصد کیا ہے؟
ج : پی ایم سی ( فیس ) گروپ میں ہمارے60 سے70 ڈاکٹرز شامل ہیں، ایک تو اس کا مقصد پیار و محبت کی فضا کو فروغ دینا ہے۔ اس سے پہلے جتنے بھی گروپس بنے، ان میں سیاست اور دیگر مسائل شامل ہوگئے تھے، اس گروپ کا مقصد سیاست سے پاک ، ہر مسئلے مسائل میں ایک دوسرے کی مدد کرنا شامل ہے۔ دوسرے ہمارے ادارے میں جتنے بھی پروگرام، فنکشن، سیمینارز ہوتے ہیں ، اسی گروپ کے زیراہتمام منعقد کئے جاتے ہیں۔ اور ’ حروف‘ گروپ کامقصد ادبی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے۔ ہمارے ملک ، معاشرے میں ادبی سرگرمیوں کا بہت فقدان نظر آرہا ہے۔ اور نفرتیں، فرقہ واریت ، اور عدم برداشت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ زہر پھیلتا ہی چلا جارہاہے۔ اس میں کمی کرنے کیلئے ، اس بھڑکتی آگ کوٹھنڈا کرنے کیلئے ہم اپنی ہرطرح سے کوششوں میں مصروف ہیں۔ سوشل میڈیا پر ( حروف) گروپ میں پڑھے لکھے لوگ یعنی ڈاکٹرز اور پروفیسرز شامل ہیں۔ اس کامقصد ادبی سرگرمیوں کو فروغ ، اوردوسرا خبری ذریعہ کہہ لیجیے، ایک دوسرے کی خوشی، غمی کی خبروں اوردیگر معاملات سے آگاہ رہتے ہیں۔
س : ملک کے بہت سے حصوں میں آنے سیلاب بلا خیز میں ہزاروں، لاکھوں لوگوں کا غیر معمولی طور پر جانی ومالی نقصان ہوا ، یقیناً ! ملک بھر سے، زندگی کے ہرشعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں، گورنمنٹ اور دیگر اداروں سب نے ان کی امداد اور ان لوگوں کی اس دکھ کی گھڑی میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا ۔ آپ دونوں ڈاکٹر میاں بیوی نے بھی کام کیا ، کہاں کہاں کیا ؟
ج : ڈی آئی خان کی تحصیل کلاچی اورکلاچی کی تحصیل کینوڑی، گرہ محبت ، ان کے گاﺅں حاجی مورہ ، دریائی ایریا اور قیوم نگر اور فتح چوک میں ہزاروں لوگوں تک میں اورمیری اہلیہ ڈاکٹرصباحت پہنچے۔ ان کے دکھوں کی داستانیں برداشت سے باہرتھیں۔
س : آپ نے کہاں کہاں کیمپ لگائے، اورسیلاب زدگان تک کیا کیا سامان پہنچایا؟
ج : ہم نے ڈی آئی خان کی تحصیلوں کے ان ایریاز ، گاﺅں گرہ محبت،کلاچی،قیوم نگر،فتح چوک میں اورحاجی مورہ یہ بہت دوردراز اورمشقت زدہ علاقے ہیں جہاں ہر ایک کی رسائی اس طرح نہیں ہوسکتی۔ ہم نے وہاں10کیمپس لگائے،5میڈیکل کیمپس اور5 راشن کیمپس لگائے۔ فوری ضروریات کا راشن ہم نے2000 فیملیز تک پہنچایا اورہم امداد کیلئے اپیل کی لوگوں نے ہمارا بھر پور ساتھ دیا۔ جس میں نقدی بھی سیلاب زدہ لوگوں تک پہنچائی۔ اسی طرح میڈیکل کیمپس میں ہم دونوں میاں بیوی نے3000مریضوں کو چیک کیا۔
س : آپ اپنا میڈیکل کا عملہ اورضروریات زندگی یقیناً ساتھ لے کر گئے ہوں گے؟
ج : جی بالکل ! ایک تو میڈیسن ہم نے خود خریدیں ۔ ہم نے میڈیسن کمپنیوں سے ادویات کی ڈونیشن نہیں لی بلکہ خریدیں۔ ہر دورے پر اپنا اسٹاف ساتھ لے کر جاتے ہیں، اس میں ہمارے اسٹاف ، ہمارے عملے نے بہت ساتھ دیا ، اور اپنی الٹراساﺅنڈ مشین، لیبارٹریز وغیرہ بھی ساتھ لے کر جاتے ہیں۔
س : ڈاکٹرصباحت ! وہاں خواتین کے بیشمار مسائل کی داستانیں ہوں گی۔ آپ نے عملی طور پر ان علاقوں میں بھرپور کام کیا ، کیا کہیں گی وہاں کے مسائل کے بارے میں؟
ج : ویسے تو خواتین کے بے شمار مسائل دیکھنے کو ملے ، خاص کر حاملہ خواتین کے مسائل بیان سے باہر ہیں ۔ اکثریت خواتین کی مناسب اور بروقت سہولیات نہ ہونے کے باعث ان کے6 اور7ماہ کے بچے پیٹ ہی میں مرگئے، اورکئی کے مر رہے ہیں ۔ فنگل انفکیشن ، خون اور خوراک کی کمی کے باعث ان کی حالت بہت سیریس تھی۔ ہم نے وہاں کام کرنے والی این جی اوز سے بات کی۔ ہماری بات کرنے سے ایسی بہت سی خواتین کوفوراً ڈی ایچ کیو ہسپتالوں میں شفٹ کیا گیا تاکہ ان کی زندگیاں بچائی جاسکیں۔ اسی طرح بچوں میں انمییا ، خون کی کمی ، پیچش، خارش، ٹائیفائیڈ وغیرہ کی بیماریاں شامل ہیں۔ بہت پریشان کن صورتحال ہے۔
س : ایک توہزاروں، لاکھوں سیلاب میں ڈوب گئے، مرگئے، بے گھر ہوئے، اور پانی کھڑا ہونے اور گندگی کی وجہ سے دیگر بیماریوں نے جنم لے لیا ۔ اتنے خطرناک اور خوفناک صورتحال !! کیا دیگر ڈاکٹرز وہاں اپنی ڈیوٹی نہیں دے رہے تھے؟
ج : یہی توالمیہ ہے ! ایک طرف قیامت گزر گئی، دوسری طرف حاملہ خواتین کے بچے پیٹ میں مر رہے ہیں ، وہ خود بھی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ وہاں کسی ڈاکٹرز کا وزٹ نہیں تھا ۔ چاہیے تویہ تھا کہ گورنمنٹ انتظام کرتی، ڈاکٹرز اور ہیلتھ ورکرز کی ڈیوٹی لگتی۔
س : اب توسردی شروع ہو رہی ہے۔ لوگوں کے پاس نہ چھت ، نہ گھر اور نت نئے مسائل کی آمد بھی ہوگی۔ اب کیا پلان کررہے ہیں؟
ج : ہم انشاءاللہ ! پوری تیاری میں ہیں۔کینیڈا (ٹورنٹو) کی اینکرحمیرا خان شمسی آج کل پاکستان آئی ہوئی ہیں۔ وہ کوہ پیما بھی ہیں ، مشکل علاقوں تک پہنچنا ان کا شوق ہے ۔ وہ ہمیں نومبر میں اپنے ساتھ بلوچستان کے علاقوں میں سیلاب زدگان ، مشکلات میں گھرے لوگوں تک لے کر جائیں گی ۔ اس میں ہم کمبل، رضائیاں، جرسیاں، جیکٹس، گرم کپڑے اور سردی کی ضروری اشیاء جمع کررہے ہیں ۔ یہی ہماری زندگی کامقصد اورمشن بھی!