Warning: Undefined variable $forward in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 78
Warning: Undefined variable $remote in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 84
شاعر …. حسن عباس رضا
غزل
میں نے کہا وہ پیار کے رشتے نہیں رہے
کہنے لگی کہ تم بھی تو ویسے نہیں رہے
پوچھا گھروں میں کھڑکیاں کیوں ختم گئیں ؟
بولی کہ اب وہ جھانکنے والے نہیں رہے
اگلا سوا ل تھا کہ میری نیند کیا ہوئی ؟
بولی تمہاری آنکھ میں سپنے نہیں رہے
پوچھا کہا گئے میرے یارانِ خوش خصال
کہنے لگی کہ وہ بھی تمہارے نہیں رہے
پوچھا کرو گی کیا جو کبھی میں نہیں رہا ؟
بولی یہاں تو تم سے بھی اچھے نہیں رہے
آخر وہ پھٹ پڑی کہ سنو اب میرے سوال
کیا سچ نہیں کہ تم بھی کسی کے نہیں رہے
گو آج تک دیا نہیں تم نے مجھے فریب
پر یہ بھی سچ ہے تم کبھی میرے نہیں رہے
اب مدتو ں کے بعد یہ آئے ہو دیکھنے
کتنے چراغ ہیں ابھی، کتنے نہیں رہے
میں نے کہا مجھے تیری یادیں عزیز تھیں
ان کے سوا کبھی کہیں الجھے نہیں رہے
کیا یہ بہت نہیں، کہ تیری یاد کے چراغ
اتنے جلے کہ مجھ میں اندھیرے نہیں رہے
کہنے لگی کہ تسلیاں کیوں دے رہے تم ؟
کہا اب تمہاری جیب میں وعدے نہیں رہے
بہلا نہ پائیں گے یہ کھلونے حروف کے
تم جانتے ہو ہم کوئی بچے نہیں رہے
بولی کریدتے ہو تم اس ڈھیر کو جہاں
بس راکھ رہ گئی ہے، شرارے نہیں رہے
پوچھا تمہیں کبھی نہیں آ یا میرا خیال ؟
کیا تم کو یاد، یار پرانے نہیں رہے
کہنے لگی میں ڈھونڈتی تیرا، پتہ، مگر
جن پر نشاں لگے تھے، و ہ نقشے نہیں رہے
جن سے اتر کے آتی دبے پاؤں تیری یاد
خوابوں میں بھی وہ کاسنی زینے نہیں رہے
تیر ے بغیر شہرِ سخن سنگ ہو گیا
ہونٹوں پہ اب وہ روشنی لہجے نہیں رہے
میں نے کہا، جو ہو سکے، کرنا مجھے معاف
تم جیسا چاہتی تھی، ہم ویسے نہیں رہے
ہم عشق کے گدا، تیرے در تک تو آ گئے
لیکن ہمارے ہاتھ میں کاسے نہیں ر ہے
اب یہ تیری رضا ہے، کہ جو چاہے، سو کرے
ورنہ کسی کے کیا، کہ ہم اپنے نہیں رہے