Warning: Undefined variable $forward in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 78
Warning: Undefined variable $remote in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 84
قصور اتنا کہ ان پڑھ کزن سے شادی نہیں کروں گی
اولاد اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے ….. اور خاص کر ”بیٹیاں“ رحمت بن کر اس دنیا میں آتی ہیں….. حضور صلعم نے اپنی دو انگلیاں جوڑ کر فرمایا جو اپنی بیٹیوں کی اچھی طرح پرورش کرے گا وہ قیامت کے دن ان انگلیوں کی طرح میرے قریب ہو گا“۔
باپ اور بیٹی میں دو چیزیں مشترک ہوتی ہیں ” دونوں کو اپنی گڑیا سے بہت پیار ہوتا ہے
میانوالی میں مبینہ طور پر شاد ی سے انکار پر باپ کی فائرنگ سے بیٹی ڈاکٹر سدرہ زندگی کی بازی ہار گئی ….. انسانیت ہی ختم ہو گئی …. جہالت کا دور زندہ ہو گیا ….. جب بیٹیوں کو پیدا ہوتے زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ بیٹی کو مارنا ہی تھا … ایک دن …. تو آپ اولاد کو جنم ہی کیوں دیتے ہو …. گھٹیا ذہنیت…. جہالت …. حیوانگی …. اور خدا خوفی ہی انتہا کو پہنچ گئی۔ لرزہ خیز واقعہ سن کر ہر با شعور انسان کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ وقت حالات زمانہ بہت بدل گیا …. اس معاشرے میں اکثریت ایسے لوگو ں کی ہے جن کی سوچ اس قدر جاہلانہ ہے …. کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے …. یہ لوگ جو قتل تک کی انتہا تک پہنچتے ہیں…. یہ انسان کہلانے کے حق دار نہیں ….. وہ بیٹی پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن گئی ….. زندگی میں کتنے خواب….. ارمان سجائے ….
خوبصورت لمحات سے گزر رہی تھی ….. شادی کا ارمان …. خواب …. خوبصورت زندگی کی منتظر ڈاکٹر سدرہ ….. دلہن بننے کی آرزو او ر اپنا گھر سجانے، سنورنے کے احساسات سے گزر رہی تھی …. اس نے دلہن بن کر سرخ جوڑا زیب تن کرنا تھا …… کیسا سفا ک والد …. جو کہنے کو باپ …. اپنی پڑھی لکھی بیٹی کو ان پڑھ اپنے رشتہ دار لڑکے سے بیاہنا چاہتا تھا ….. بیٹی کا کوئی قصور تھا …..؟؟ قصور ہوتا بھی…. والدین تو اپنی بچوں کی آنکھوں میں آنسو برداشت نہیں کر سکتے۔ بچوں کو سوئی جتنی بھی تکلیف ہو …. تو والدین کے پاؤں تلے زمین نکل جاتی ہے۔
یہ کیسا والد …. کیسا باپ …. جس کے اندر رحم …. نرمی اور محبت جیسی کوئی چیز نہیں تھی …. تھی تو صرف انا …. جائیداد بچانے کی ہوس ….. نہ وہ انسان …. نہ خدا کا خوف۔
اس کا شرعی حق تھا ….. کہ وہ لیول کا تو انسان ہو …. کچھ پڑھا لکھا ہو ….. جس سے اس کی شادی ہو…. اس کو شعور ہو ۔ صبح کے وقت ناشتہ بناتے وقت ڈاکٹر سدرہ کو پہلے ٹانگ میں گولی ماری اور پھر سر پر
گولی مار کر بیٹے کو کہا ”اس کو لے جاؤ …. میں نے مار دی ہے“۔ ڈاکٹر سدرہ کے خوابوں …. خیالوں میں بھی نہیں ہو گا …. اس کا سفاک والد … جو کہنے کو صرف والد …. اپنی بیٹی کی جائز بات ….. جائز اور شرعی خواہش کا بھی مان نہ رکھ سکا ….. اس کو گولیوں سے بھون کر ہمیشہ کیلئے ابدی نیند سلا دے گا۔ ڈاکٹر سدرہ ہمیشہ کیلئے اس خاندان، سے زندگی اور موت کی جنگ لڑتے لڑتے …. اللہ کے پاس پہنچ گئی …. جانے والی تو چلی گئی ….لیکن ان گنت سوالات کے انبار چھوڑ گئی …. افسوس کرنے والے بھی ہزاروں لوگ ان کے گھروں میں پہنچے ہوں گے …. وقت گزر جائے گا …. لیکن انہی افسو س کرنے والے لوگوں میں ہر دوسرے …. تیسر ے گھر کی کہانی ایسی ہی ہو گی ….مسائل کی نوعیت مختلف ہو گی ۔سوچ نہیں بدلتی …. بدل بہت کچھ جاتا ہے ….. پر انی دقیانوسی سوچوں اور اپنے بنائے چنگل سے ہی باہر نہیں نکلتے ۔۔۔ ا پنے …. بچوں کی آرزؤں کا خون کر دیتے ہیں۔ کیا اپنے لئے آواز اٹھانے والی بیٹیاں یونہی زندہ درگور ہو تی رہیں گی؟؟ جانے والی چلی گئی مگر سوالات کا انبار چھوڑ گئی ۔۔۔ کیا پولیس اہلکار ایسی بے کار اور بے معنی ایف آئی آر درج کر کے اپنی جان چھڑواتے رہیں گے؟ کیا ذہنی توازن درست نہیں …. کہہ کر کیسا بھی جر م ہوتا رہے گا ؟؟؟ کیا ریاست کسی مظلوم کے حق میں کھڑی نہیں ہو گی …… کہیں بھی انصاف نہیں ہو گا ….. ایسے واقعات مختلف طرح کے آئے روز اس ملک میں ہوتے رہتے ہیں ….. اور ہوتے رہیں گے…. نہ کوئی قانون ….. نہ سزا ….. سالوں کیسز التواء کا شکار رہتے ہیں ۔۔۔ کہاں ہیں انسانی حقوق کی تنظیمیں…. صرف بیانات اور بیانات تک ہی سب محدو د …. ابھی تو سدرہ کے ہاتھوں میں مہندی لگنی تھی …. اس نے بھی ڈھیروں سپنے سجائے …. دلہن بننے کے …. اس کو دوسرے انسانوں کی طرح جینا تھا …. اپنا گھر بسانا تھا…. اسے اپنے ہاتھوں سے سجانا تھا۔ سدرہ کو وہی ماں بہن جو دن رات طعنے دیتی تھیں ….غسل دیا ہو گا…. کفن پہنایا ہو گا …. زارو قطار آنسوؤں، چیخوں اور سکیوں میں ہمیشہ کیلئے رخصت کیا ہو گا …..
اور پھر جس بھائی نے ایف آئی آر کٹوا ئی تھی …. وہ باپ کو معاف کر دے گا ….. زندگی وقت کیساتھ ساتھ روٹین میں آ جائے گی…. گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ….. سب دھول ہو جائے گا …. کہاں ہے …. انصاف ؟؟ ڈاکٹر سدرہ کو ہمیشہ کیلئے ابدی نیند سلا دیا گیا ….. یہ واقعہ ہمارے معاشرے کو جھنجوڑنے کیلئے کافی ہے…. خدار ا ! اپنی سوچوں کو بدلیں …. اپنے گھروں کے ماحول کو بدلیں ….. اپنے بچوں کو ”انڈر سٹینڈ“ کریں…… پرانی گھسی پٹی …. اور خود ساختہ روایات …. ….کو بدلیں …. اسلام کو سمجھیں …. کیا ہمارا اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے … سختی اور زبردستی کریں ….. بچوں کیساتھ ….. خاص کر بیٹیوں کیساتھ …… جس طرح سدرہ کیساتھ ہوا ….خدار ا ! جائیدادوں اور انا کی بھینٹ ا پنے بچوں کو نہ چڑھائیں …. ان کی زندگیاں برباد نہ
کریں…. اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ….وہ اپنا رول اد ا کریں ….. لوگوں میں شعور اجاگر کریں ….. لوگوں کی جاہلانہ سوچ کو بدلنے میں اپنا کردار ادا کریں …. تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے …. افسوس ! اور المیہ یہ کہ ہمارے ملک میں قانون کی سختی اور عملدرآمد نہیں ….. جہاں جہاں ایسے واقعات رونما ہوں…. قانون سخت ہو….. بر وقت اور اور انصاف پر مبنی فیصلے ہوں …. تو ملک میں ایسے واقعات میں تب ہی کمی ممکن ہو سکتی ہے ………ورنہ آئے روز ہم مختلف واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ….. روتے اور افسوس کرتے آگے گزر جاتے ہیں …. پھر دوسرے دن کوئی اور نوعیت کا واقعہ سامنے آ جاتا
ہے۔