Warning: Undefined variable $forward in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 78
Warning: Undefined variable $remote in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 84
محبت کے بغیر ز ندگی ادھوری ہے۔ مقصود وفا
انٹرویو….عائشہ شفیق
یوں تو پاکستان میں بڑے بڑے شاعروں نے جنم لیا… جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ غیر ممالک میں اپنی پہچا ن بنائی… فیصل آباد کی ادب و شاعری کا ایک بڑا نام…. مقصود وفا جنہوں نے ادب و شاعری کو ہوا … اور خوشبو کیطرح فیصل آباد اور دیگر شہروں کی فضاؤ ں کو معطر کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف پاکستان میں اپنی پہچان بنائی…. بلکہ باہر کے ممالک میں اکثرو اوقات ان کے اعزاز میں مشاعروں کا انعقاد کیا جا تا ہے۔ مقصو د وفا منفرد… لاجواب اور باکمال شاعر تو ہیں ہی۔ انداز بیان اتنا پرکشش… کہ سننے والے کے دل میں اتر جائے۔ مقصو د وفا نہ صرف خوبصورت شاعر… بلکہ عزم وہمت کا پیکر اور متوازن شخصیت کے مالک اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ پولیو کی معذوری ان کی راہ میں کبھی بھی رکاوٹ نہیں بنی….جہد مسلسل، انتھک محنت، اعلیٰ اخلاق کی بدولت فیصل آباد اور…. پاکستان کا تا بناک ستارہ بن کر ابھرے اور چھا گئے…. اور دوسروں کیلئے مثال بن گئے… اپنی شاعری، اعلیٰ اخلاق وکردار ،شائستہ مزاج کی بدولت مقصود وفا ہر عمر ہر طبقہ کے لوگوں کی پسندیدہ شخصیت ہیں…
ان کے علم و فن کی روشنی سے ادب کا گلستان مہک رہا ہے۔ اپنی معذوری کو زندگی میں کبھی رکاوٹ نہیں بننے دیا، اپنے مضبوط ارادوں، ہمت و حوصلوں اور مستقل مزاجی کی بدولت اپنی فیملی اور خاص کر معاشرے کیلئے ان کی شخصیت سکون اور خوشی کا باعث بن گئی۔ وہ معاشرتی مسائل کے حل کیلئے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ گذشتہ کئی سالوں سے ریڈیو پاکستا ن سے وابستہ رہے۔ نہ صرف شاعری میں نام پیدا کیا…. بلکہ گذشتہ کئی سالوں سے ایک نجی بینک میں اعلیٰ عہدے پر فائز رہے…. آجکل شاعری کیساتھ اپنے کاروبار کو وقت دیتے ہیں۔ ا ن کی شاعری پر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد، مدینہ ٹاؤن فیصل آباد یونیورسٹی، راولپنڈی، سرگودھا اور دیگر شہروں کے کئی تعلیمی اداروں میں ان کی شاعری پر مقالہ جات لکھے جا رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں مقصود وفا سے گفتگو کی گئی جو نذر قارئین ہے۔
س: آپ بچپن سے شاعری کر رہے ہیں؟
ج: جی بالکل! بچپن سے ہی، چھٹی ساتویں کلاس سے ہی باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا… .پھر میٹرک اور کالج کے دور میں کالجز میں اور دیگر مشاعروں میں شرکت کرنا شروع کر د ی تھی۔
س: زیادہ تر کہا جاتا ہے کہ شاعری عشق و محبت کی ناکامی، ٹھوکروں اور محبوب کی جدائی میں جنم لیتی ہے… کیا خیال ہے آپ کا؟
ج: شاعری ایک احساس، جذبے… اور ایک کیفیت کا نام ہے… اور شاعری اللہ کا خاص عطا کردہ تحفہ اور نعمت ہے۔ نشیب وفراز تو ہر ا نسان کی زندگی میں آتے ہیں… اس کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے…. رہ گئی بات ٹھوکریں لگنے کی وہ سب کو لگتی ہیں… ہو نہیں سکتا کوئی انسان اس سے نہ گزرے…. شاعر زرا حساس طبیعت کے ہوتے ہیں… وہ کسی بھی دکھ و تکلیف کو محسوس زیادہ کرتے ہیں…… ان کے سوچنے کا ا نداز دوسروں سے منفرد ہوتا ہے۔ اور کون ہے جو محبت نہیں کرتا…. محبت کے بغیر زندگی ادھوری ہے… او ر محبت تو قدرت کی بنائی ہر چیز ہر انسان ہر رنگ سے ہوتی ہے… محبت سے آپ کا وجود آپ کا آ نگن آپ کا معاشرہ مہکتا ہے۔۔۔ محبت نہ ہو تو زندگی کے سارے پھول مرجھا جائیں…
س: نوجوانوں کی اکثریت شاعری کی طرف راغب ہے… کیا کہیں گے؟
ج: نوجوان جو شاعری کی طرف ہیں…. ان میں اچھے شاعر بھی ہیں…. لیکن میں تو یہ کہوں گا کہ آجکل نوجوانوں میں تیزی زیادہ ہے… پہلے زمانے میں شاعروں میں ٹھہراؤ تھا….آ ج کا نوجوان چاہتا ہے کہ جلد از جلد شہرت بھی حاصل ہو جا ئے…. اور سب کچھ مل جائے۔ سب سے بڑا لمحہ فکریہ نوجوانوں کی اکثریت میں مطالعہ کی کمی ہے….. شاعری کی اپنی زبان ہے۔ شا عری کو پڑھنا، علو م کو سیکھنا، لفظوں کے اپنے علوم ہوتے ہیں…. فہم، لہم کیساتھ علوم کو بسر کرنا ہوتا ہے۔ مطالعے کیساتھ آگے آئیں… نئی خواتین شاعرہ پر الزام ہے کہ وہ لکھواتی ہیں… ان سے مایوس ہوں… ان سب کو یہی کہوں گا شاعری کے آگے نہ کھڑے ہوں۔ زخم کو سہنا پڑتا ہے… ہر چیز میں وقت لگتا ہے… ریاضت کریں… محنت اور دیانتداری سے کام کریں…. شاعری میں جھوٹ کی آمیزش شامل نہ کریں۔ خدارا اس کو داغ نہ لگنے دیں۔ شاعری کیا زندگی میں کوئی بھی کام کریں… سچائی اور ایمانداری سے کریں… اس کی اہمیت اور مقام کو د یکھیں۔
س: کیا شاعری ایک فل ٹائم جاب ہے؟
ج: شاعری ایک فل ٹائم جاب نہیں… شاعری اپنا وقت خود نکال لے گی…. یہ ہمہ وقت آپ کے اندر سموئے ہوئے ہوتی ہے… شاعری نہ محض شوق کی حد تک ہے…. نہ کوئی منصب اور نہ کوئی عہدہ۔ جس کو حاصل کر نا ہے… شاعری ایک تعلق ایک رشتہ ہے…. جیسے آپ ذمہ داری اور خو بصورتی سے کسی رشتہ کو نبھاتے ہیں…. اس کو کب تک ساتھ لیکر چلتے ہیں….. یہ شاعری تو ساری زندگی آپ کیساتھ چلتی ہے… شاعری تو ایک کے بعد ایک در کھولتی ہے…. جاب تو آپ نے حاصل کرنی ہے شاعری کا کوئی حاصل نہیں…. یہ ایک ریاضت ہے…… یہ مرتے دم تک انسان کے وجود میں شامل ہوتی ہے۔
س : ایک تا ثر ہے کہ زیادہ تر شاعر کسمپسری کی زندگی گزا ر رہے ہوتے ہیں… فل ٹائم ملازمت یا ذریعہ
آمدن ان کا کوئی بہتر نہیں ہوتا… کیا کہیں گے؟
ج: جی دیکھیں! معاشرے میں جیسے امیر و غریب لوگ ہوتے ہیں… ہر طبقہ میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایسے ہی شاعروں میں بھی ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں… اب ساغر صدیقی نے ساری زندگی فٹ پاتھوں پر گزار دی یہ اس کی اپنی چوائس تھی۔ لیکن خود سے آپ اپنی پوری کوشش کریں… محنت کرنے اور کام کرنے کی۔ شاعری یہ تو نہیں کہتی آپ کام ہی نہ کریں… آپ کا روز گار ہی کوئی نہ ہو۔ کچھ لوگوں کی اپنی مجبوریاں اپنے اپنے مسائل ہو سکتے ہیں۔ لیکن تعلیم حاصل کر نا بہت ضرور ی ہے… آپ محنت کر یں… کام کریں… ذلیل و خوار تو نہ ہوں… عزت کی زندگی گزاریں… شاعری تو اپنا وقت خود نکال لیتی ہے۔ ا پنی فیملی پر معاشرے پر بوجھ نہ بنیں…. بلکہ فیملی کی اور معاشرتی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے سر انجام دیں۔ جب آپ گھریلو اور معاشرتی ذمہ داریوں کو ہی ادا نہیں کرتے…. تو شاعری
بھی آپ سے روٹھ جاتی ہے…. کام، ملازمت شاعری پر اثر اندا ز نہیں ہوتی۔
س: شروع میں جب آپ نے شاعری کا آغاز کیا تو آپ کو ا پنے گھر والوں سے کس طرح کے رویے کا سا منا کرنا پڑا؟
ج: شروع شروع میں والدہ صاحبہ کافی پریشان ہوتی تھی… کہ مقصود کس کام میں لگ گیا… اس کا کیا مستقبل ہو گا…… ماں تھی نہ۔۔ تو ان کو ہر وقت یہ فکر لگی رہتی تھی نہ جانے یہ کوئی کام بھی کرے گا کہ نہیں۔۔۔ لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ جب گھریلو ذمہ داریاں بھی پوری کرنے لگا، میں اپنے ہر کام سے انصاف کرتا اور ہر کام کو مناسب وقت دیتا تھا۔ ان کو بھی احساس ہونے لگا کہ یہ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری کر رہا ہے… بلکہ میری پہلی کتاب ”درامکان“ کی رونمائی ہوئی… اس میں اپنی والدہ صاحبہ کو اپنے ساتھ لے گیا… وہاں پھر ہر طرح کے نامور اور شہر کی جانی پہچانی شخصیات آئی ہوئی تھیں۔۔ جو اعز ازت، عزت اور محبتیں سمیٹیں… والدہ صاحبہ گھر آ کر کافی خوش تھیں۔
س: ایک تاثر آپ نوجوانوں کے ہی پسندیدہ شاعر ہیں… کیا ایسا ہے؟
ج: ویسے مجھے ہر عمر کے لوگ ہی پسند کرتے ہیں… سب بہت محبت دیتے… عزت کرتے ہیں۔ احساس، جذبے سب کے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں… شاعر ی میں سب کو لگتا ہے یہ اس کے د ل کی با ت ہو رہی ہے….. شاعری تو نسل در نسل سفر کرتی ہے۔
س: آپ کے اپنے پسندیدہ شاعر کون ہیں؟
ج: ن۔م راشد، میرا جی، مجید امجد اور اختر حسین جعفری میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔
س: آپ کے بارے میں مختلف تاثر ہے… کچھ کا خیال ہے کہ آپ غزل کے شاعر ہیں اور کچھ کہتے ہیں نظم کے ؟
ج: غزل، نظم نصابی تو ہو سکتی ہے…. مگر تخلیقی حیثیت نہیں… میرے خیا ل میں غزل، نظم دونوں میں ہی شاعری ہے…. اس کا تعلق تو دراصل خیال سے ہے… مختلف لوگوں کی رائے مختلف ہو سکتی ہے۔
س: لگتا ہے پہلے دور میں مشاعرے زیادہ ہوا کرتے تھے… اب گذشتہ کچھ سالوں سے ادبی تقریبات اور مشاعرے بھی کم نہیں ہو گئے اور ادبی سرگرمیاں بھی ماند پڑ گئیں؟
ج: نہیں! ایسا بالکل نہیں…. بلکہ میرے خیال میں اب تو پہلے سے زیادہ مشاعرے اور ادبی تقریبات ہو ر ہی ہیں۔ ہمارے فیصل آباد شہر میں ہی ”حلقہ ارباب ِ ذوق“ کے زیر اہتمام کافی تقریبات ہوتی ہیں اور ہر ہفتے نشست ہوتی ہے جس میں علمی و ادبی گفتگو ہوتی ہے جس میں سب کو ایک دوسرے سے سیکھنے کو کچھ نہ کچھ ملتا ہے۔ اب تو کافی تنظیمیں ادبی تقریبات اور مشاعرے کروانے میں متحر ک نظر آتی ہیں۔
اسی طرح تعلیمی اداروں میں ادب کے شعبہ جات بھی ادبی تقریبات کرواتی رہتی ہیں۔ ا ب سوشل میڈیا کا دور ہے…
اس کے ذریعے بھی لوگوں تک شاعری پہنچ رہی ہے۔۔
س : پاکستان میں ادب کے ادارے۔ جیسے آرٹ کونسل، مقتدرہ قومی زبان، اور دیگر ادبیات کے ادارے اس طرح کام کر رہے ہیں…. جس طرح ان کو کرنا چاہئے؟
ج : ان اداروں میں بھی دوسرے اداروں کی طرح سیاست شامل ہے…. ان اد اروں میں گورنمنٹ کے چند منظورِ نظر افسر متعین کیئے جاتے ہیں… ان کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں… 75 سالوں سے یہی کچھ ہوتا آرہا ہے… اداروں کو صحیح طور پر کام ہی نہیں کرنے دیا جا رہا… نہ انصاف ہے… نہ شفافیت۔ صحیح اور ایمان دار لوگوں کو آگے ہی نہیں آنے دیا جاتا….. جب اداروں میں کام کرنیوالے لوگ ہی سفارشی اور گورنمنٹ کے پسندیدہ ہو نگے….
تو کام کیسے ہو گا…. اصل حقدار اور میرٹ پر لوگ کیسے آگے آئیں گے یہی ہمارے قوم کا ہمارے ملک کا المیہ ہے۔ دیگر تمام اداروں اور ادبی اداروں میں شفاف اور ایمان دار لوگ میرٹ پر بھرتی کئے جائیں….. پھر ادارے بھی پروان چڑھتے ہیں…. اور علم وا دب کو فروغ ملے گا…. اور خاص کر نوجوانوں کو مثبت رجحان کیطرف اپنے ٹیلنٹ کو نکھا رنے کے مواقع ملیں گے۔