Warning: Undefined variable $forward in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 78
Warning: Undefined variable $remote in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 84
معاشی بحران سے نکلنے کیلئے پالیسیوں کو اپ ڈیٹ کرنے اور اس پر سختی سے عملدر آمد کی ضرورت ہے
پاکستان کا چمکتا ستارہ، ستارہ کیمیکل گروپ کے چیئر مین اور معروف صنعتکار میاں محمد ادریس
انٹرویو …. عائشہ شفیق
یوں تو پاکستان کی سر زمین پر بڑی بڑی شخصیات نے جنم لیا، جنہوں نے نہ صرف کاروبار میں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنا نام پاکستان اور باہر کے ممالک میں بھی روشن کیا۔ نام اور شہرت حاصل کرنا شاید اتنا دشوار نہ ہو۔ اپنے نام، کام اور شہرت کیساتھ عزت و وقار اور محبتیں کسی کسی کو نصیب ہوتی ہیں … پاکستان کی نامور کاروباری شخصیت اور چیئر مین ستارہ کیمیکل گروپ فیصل آباد میاں محمد ادریس جیسے انسان صدیوں میں کہیں پیدا ہوتے ہیں، وہ نہ صرف معروف کاروباری شخصیت ہیں …. بلکہ وہ صدر فیڈریشن چیمبر آف کامرس پاکستان اور…. انٹر نیشنل ڈائریکٹر لائنز کلب رہ چکے ہیں … یہ دنیا کی سب بڑی این جی او ہے …. جس سے دنیا بھر کے لاکھوں لوگ وابستہ ہیں …. میاں محمد ادریس ڈی 8 ممالک اور ای سی ا و ممالک کے بھی صدر رہ چکے ہیں، اس طرح انہوں نے دنیا میں 20 بزنس کمیونٹیز کو لیڈ کیا ہے۔ ان کی عادات، مزاج، گفتار میں بھر پور شائستگی، نرمی اور اعلیٰ اخلاق، کردار، ملنساری کی بدولت …. وہ اپنے حلقہ احباب او ر دنیا کی پسندیدہ شخصیت بن گئے، ان کا حسن ِ سلوک ، فلاحی کام، مذہبی رجحان
ان کی زندگی کے ہر رنگ اور ہر عمل میں آپ کو نظر آئے گی
میاں محمد ادریس نے اپنی زندگی کا سفر اپنے والد کیساتھ چھوٹی سی دوکان پر کام کر کے کیا اور سائیکل پر سواری کیا کرتے تھے …. محنت، مشقت اور مستقل مزاجی کے زینے طے کرتے کرتے اب ستارہ گروپ …. ایک ”بزنس ایمپائر“ بن چکا ہے … ”ستارہ گروپ“ کا پوری دنیا میں ایک منفرد نام اور پہچان ہے۔
یہ4 دہائیوں کا سفر اور کامیابیوں کے راز ہم آپ تک پہچانا چاہتے ہیں۔ ستارہ کیمیکل گروپ کے چیئر مین میاں محمد ادریس سے خصوصی گفتگو کی گئی جو نذر قارئین ہے۔
س : سر! آپ اپنے ابتدائی ایام کے بارے میں بتائیں گے ….. کس طرح زندگی کے سفر کا آغاز ہوا ؟
ج: ڈی پی ایس فیصل آباد سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے
سائیکالوجی میں گریجویشن کی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سائیکالوجی کی تعلیم میری زندگی پر بہت اثر انداز ہوئی ….. اس کے پڑھنے سے انسانیت اور قدرت کو سمجھنے کا موقع ملا اور قدرت کے قریب ہوتا چلا گیا …. یوں کہہ لیں سائیکالوجی نے میری زندگی کی ڈائریکشن ہی بدل ڈالی۔ اور اس وقت وہ پاکستان کا واحد سکول تھا جہاں یونین تھی اور میں اس کا صدر تھا، سیکھنے کے مزید مواقع، ٹریننگ مجھے وہاں سے ملتی چلی گئی، یوں کہہ لیں لیڈر شپ کوالٹی کو استعمال کرنے اور پالش کرنے کے مواقع مجھے سکول سے ہی ملنا شروع ہو گئے تھے۔
س: سر! ایک چھوٹی سی دوکان سے آپ کے والد نے بزنس کا آغاز کیا …. دیکھتے ہی دیکھتے اب ”ستارہ گروپ
ایک بڑی بزنس ایمپائر میں تبدیل ہو چکا ہے؟
ج: جی میرے والد صاحب پہلے ایک دوکان پر ملازمت کیا کرتے تھے …. میں ان کیساتھ سائیکل پر سواری کیا کرتا تھا
میرے والد اور تایا جی 16 گھنٹے کام کیا کرتے تھے۔ محنت، مستقل مزاجی، ایمانداری، سلوک و اتفاق، او ر والدین کی خدمت ان چیزوں نے زندگی میں کامیابیوں کے راستے کھول دیئے اب اللہ کے فضل و کرم سے سب آپ کے سامنے ہے۔
س: کیا ایک بزنس مین کے اندر لیڈر شپ کی کوالٹی ہونا ضرور ی ہے؟
ج: دیکھیں ! لیڈر شپ کی خوبیاں آپ زبردستی کسی کے اندر پیدا نہیں کر سکتے، جیسے ایک آرٹسٹ کو آپ زبردستی تو نہیں سکھا سکتے …. یہ خوبیاں تو آپ کے اندر جینز میں ہوتی ہیں …. لیڈر شپ کی کوالٹی ہو یا کوئی بھی خوبی آپ کے اندر قدرتی طور پر ہوتی ہے …. جس کو آپ اپنے وژن سے نکھارتے ہیں، پا لش کرتے ہیں …. پھر آپ کو آس پاس کے لوگ مل جاتے ہیں جو گائیڈ کرتے ہیں، جن سے آپ سیکھتے ہیں، آجکل تو اتنے ادارے کھل گئے ہیں، جو آپ کو ٹریننگ دیتے ہیں۔
س: پاکستان اور دنیا میں ایک عمومی بحث کی جاتی ہے کہ بزنس کیلئے ایک خاص مائنڈ سیٹ ہونا ضروری ہے… بزنس پڑھ کر بزنس نہیں کیا جا سکتا …. اکثر ملازمت پیشہ لوگوں کو یہی کہتے سنا ہے کہ میں ملازمت نہ کرتا …. کاروبار کر لیتا، کیا کہیں گے ؟
ج:۔ میاں محمد ادریس نے کہا کہ بزنس کیلئے ایک انوائرمنٹ اور ایکسپوژر کا ہونا بہت ضرور ی ہے ….میں دیکھتا ہوں جو لوگ ملازمت کرتے ہیں وہ اسی پر ہی اکتفا کرتے ہیں …. ان میں بہت سے ایسے لوگ جن کے اندر ایسی خوبیاں نظر آتی ہیں کہ وہ بہت اچھا بزنس کر سکتے ہیں….. اور وہ چاہتے ہیں تھوڑا کما لیں لیکن پابند نہیں ہو سکتے۔ و ہ کام کو سیکھنا اور آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ اب دوکان، ریسٹورنٹس یا
کسی بھی فرنچائز کو دیکھ لیں کچھ لوگ وہاں کام شروع کر دیتے ہیں، وہ ان کی ڈیمانڈ ان کے مائنڈ کے مطابق نہیں ہوتا، وہ وہاں ایڈجسٹ نہیں ہو پاتے۔
س: جو کا روبار کیطرف آنا چاہتے ہیں یا کوئی بھی کام کرنا چاہتے ہیں آپ کیا کہیں گے؟
ج:۔ سب سے پہلے وہ یہ دیکھیں اس کام کا ان کو کتنا نالج ہے، اپنے اوپر اعتماد، کلیئریٹی، محنت، مستقل مزاجی اور و ژن یہ سب ضرور ی ہے۔ جو بھی کام کریں، خالص نیت او ر ایمانداری سے کریں۔ اب دیکھیں بہت سارے برینڈز دنیا میں کہاں سے کہاں پہنچ گئے، کسی نہ کسی خوبیوں کیوجہ سے وہ ترقی کر گئے، اور خاص پلاننگ بہت ضروری ہے۔ آپ دیکھیں آپ کا اپنا مائنڈ کہاں ہے آپ کیا بہتر کر سکتے ہیں۔ کلیئریٹی، وژن اور اعتماد بہت ضروری ہے۔
س: سر ! ایمانداری خاص کر بزنس میں کتنی ضرور ی ہے، آجکل فائلوں کو پہئے لگائے بغیر کوئی کام نہیں چلتا تو اس کے بغیر کاروبار کیسے اتنا ترقی کر سکتا ہے؟
ج:۔ ہم نے تو اپنے والد اور تایا سے ہمیشہ دیانت داری، ایمانداری سیکھی ہے انہی اصولوں پر عمل کیا ہے، اپنے کسٹمر ز کو کبھی دھوکا نہ دو، آپ ہارورڈ یا آکسفورڈ یونیورسٹی کی ڈگریاں لیکر آ جاؤ جب تک آپ کے اندر ایمانداری نہیں ہے، آپ کتنا عرصہ دھوکے کیساتھ زندہ رہ سکتے ہیں۔ ہمارے والد نے ہمیں یہی سکھایا جس دن آپ نے اپنے کسٹمرز کو دھوکا دے دیا آپ ڈیکلائن زون میں چلے گئے۔ بہت سے ٹیسٹ آپ کی زندگی میں آتے ہیں، صاف نیت اور مضبو ط ایمان کیساتھ دیانت داری سے اپنے معاملات اور کسٹمر ز کیساتھ چلنا ہے،
اپنی ایمانداری پر قائم رہنا ہے، اور اپنی زبان پر قائم رہنا، پھر دیکھیں اپنے کا م میں اللہ کی برکتیں اور نوازشوں کی بارش۔ میاں ادریس نے اپنا واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ ایک دفعہ مجھے جیکب آباد جانے کا اتفاق ہوا، اس وقت میں خود ٹریننگ پر تھا، میری ملاقات ہندو دوکاندار سے ہوئی اس نے مجھے بتایا کہ حاجی صاحب کیساتھ کام کرتے مجھے 25 سال ہو گئے، مجھے اتنے سالوں میں انہوں نے دھوکا نہیں دیا، ستا رہ کا کو ئی کپڑا خراب نکل آئے تو خواتین سلے سلائے کپڑے واپس کر سکتی ہیں۔ آ پ ایسے رنگ ڈالیں ہی کیوں کہ کپڑا خراب نکل آئے۔ اب ہم نے آج تک گورنمنٹ کو چیٹ نہیں کیا، زندگی میں بہت سارے مواقع آئے، پر والد صاحب کی سخت ٹریننگ اور تربیت کے نتیجے میں سخت اصولوں پر
قائم رہے،ان اصولوں پر عمل پیرا رہنے سے ہی تو کامیابیاں اور سکون، عزت یقینا آپ کا مقدر ہوتی ہے
۔س:۔ آج کے دور میں ہمیں بہت سے چینلجز در پیش ہیں، ان چیلنجز سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے؟
ج:۔ چیلنجز تو زندگی کا حصہ ہیں، خواہ وہ کاروبار میں یا زندگی کے کسی بھی شعبے میں ہوں یا فیملی لائف میں،
ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے اسٹرٹیجی اپنانی چاہئے، بجائے مایوس ہو کر پریشان ہو کر بیٹھ جائیں، اب کمپنیوں میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، پرافٹ اور نقصان دونوں طرح کے چیلنجز در پیش رہتے ہیں، سب سے پہلے تو اپنی سوچ اپنے وژن کو اپ ڈیٹ رکھیں، دیکھیں دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ ہمیں بزنس میں کمپیٹیشن کے چیلنجز آتے ہیں، اپنی ٹیم کو اپ ڈیٹ رکھیں، ان کو ساتھ لیکر چلیں، آپ کو مارکیٹ، نیشنل اور انٹرنیشنل مکمل نالج ہو۔ سالوں پرانی پالیسیوں کو نہ لیکر چلیں، ہماری فیکٹری میں ہر دو سال بعد ایس او پیز تبدیل ہو جا تے ہیں۔ بڑے پیمانے پر پروفیشنلز کو ساتھ لیکر چلتے ہیں۔ ہم چیلنجز کو آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں۔چیلنجز کو ئی بھی ہو، بزنس معاملات میں یا فیملی لائف، اعتماد، وژن اور بردباری سے ان کو حل کر لیتے ہیں۔
س:۔ سر! فلاحی کاموں کی تفصیل بتانا پسند کریں گے؟
ج:۔ ہمارے والد اور تایا جی….. ہمارے گروپ لیڈر 500 بیڈ کا عزیز فاطمہ ٹرسٹ ہسپتال بنا گئے …. اس میں غریب مریضوں کا مفت علاج ہو رہا ہے … جب یہ ہسپتال بنا تھا اس میں 12 کروڑ کی ”ایم آر آئی“ کی جدید مشین جو اس وقت پاکستان میں دوسری جدید مشین لگائی گئی تھی …. اس ”ایم آر آئی“ ٹیسٹ کی جو فیس افورڈ کر سکتا ہے اس سے فیس لیتے ہیں …. جو ادا نہیں کر سکتا نہیں لیتے۔ اور عزیز فاطمہ ڈینٹل کالج بھی اس کیساتھ منسلک ہے …. اور فیصل آباد کے ارد گرد کے گاؤں کے ضرورت مند لوگوں کی لسٹیں بنی ہوئی ہیں …ا نہیں ہر سال سردی، گرمی کے کپڑے،
کمبل، رضائیاں، گندم اور دیگر راشن پہنچایا جاتا ہے۔
س: عزیز فاطمہ ٹرسٹ ہسپتال میں ستارہ گروپ کی ایمپائر کا کیا رول ہے ؟
ج: جی ستارہ گروپ کے تمام پروجیکٹس میں ہر سال آمدن کا کچھ حصہ عزیز فاطمہ ہسپتال کو آتا ہے …. بلکہ دیگر کئی ضرورت مند اداروں کو جاتا ہے
س:۔ ”الف“ ایجوکیشنل چینل لانج کرنے کا مقصد کیا تھا ؟
ج:۔ ہر چینل کی اپنی اپنی پالیسیاں ہیں …. میں نے سوچا کہ میں اپنے لیول پر ملکی سطح پر کنٹربیوٹ کروں، خاص کر ایجوکیشن میں خاصا گیپ ہے، ستارہ اپنے ہر ادارہ میں ایک سٹینڈرڈ سیٹ کرتا ہے، اسی طرح اس چینل کو ایک تو سیٹلائٹ کیا گیا ہے۔ اس میں تعلیم کیساتھ تربیت …. جو آجکل ہمیں اس کا خاصا فقدان نظر آ رہا ہے۔ ہمار ی ویلیوز، اقدار، اخلاقیات، انسان سے انسانیت تک کا کردار، ہماری ٹریننگ، یہ سب بہت اہم ہیں…. جن کو ہم چھوڑتے جا رہے ہیں …. اور ہی ڈگر پر چل رہے ہیں …. تاکہ نئی نسلوں تک یہ روایات اور اخلاقیات منتقل کی جائیں۔ یہی ہماری بحیثیت انسان ذمہ داری ہے۔
س: ستار ہ گروپ کا پاکستان کی اکنامی میں کیا کردا ر ہے؟
ج:۔ پچھلے دنوں ”بزنس آف پاکستان“ کی بک میں ستارہ گروپ کا 27 نمبر تھا۔
س:۔ بزنس مین اتنا ٹیکس نہیں دیتے، جتنا ان کو دینا چاہئے …. آپ کے خیال میں کیسے ممکن بنایا جائے کہ ٹیکس کی ادائیگی یقینی ہو؟
ج:۔ ہر بزنس کی رجسٹریشن کو سب سے پہلے یقینی بنایا جائے، 70 سال سے ٹیکس لینے کا جو طریقہ کار ہے میرے نزدیک وہی فیل ہے۔ پاکستان سارک ممالک میں واحد ملک ہے جس کی ٹیکس ریشو انڈیا، نیپال، حتیٰ کہ سری لنکا سے بھی کم ہے۔ ٹیکس کے طریقہ کار کو اپ ڈیٹ کیا جائے۔
س:۔ ستارہ گروپ کے کل کتنے ملازمین اور کتنے یونٹ کام کر رہے ہیں؟
ج:۔ ستارہ گروپ کے ملازمین دس ہزار سے زیادہ ہیں اور ستارہ گروپ میں ہمارے فیملی یونٹ میں ٹیکسٹائل سپننگ، ٹیکسٹائل پرنٹنگ پروسسینگ، ستار ہ فیبرک، ستارہ انرجی اور ستارہ پراکسائیڈ ہیں۔
س:۔ کیا سود کے بغیر کاروبار ممکن ہے؟
ج:۔ سود کے بغیر کارو بار بالکل ممکن ہے، ہمارے ستارہ میں خسارہ اور منافع دونوں ہی ہیں، تب ہی اسلامک لون کہہ سکتے ہیں۔ محنت، دیانت داری، مستقل مزاجی، وژن، آپ کے اندر صبر، برداشت ہے آپ اپنے کاروبار کو کہاں سے کہاں لیکر جا سکتے ہیں۔
س:۔ سر!! پاکستان کو اکنامک چینلجز در پیش ہیں، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، ہم معاشی بحران سے ہی نہیں نکل پا رہے؟
ج:۔ پاکستان میں جو پالیسیاں بنتی ہیں ان میں کلیئریٹی نہیں ہے، ان پر عمل درآمد ہی نہیں ہوتا، اور گذشتہ کئی سالوں سے اداروں میں وہی گھسی پٹی پالیسیاں چل رہی ہیں …… افسوس ! ہمارے ملک میں ایکسپورٹ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، ہمارے اداروں میں جو ٹیم ہو وہ پروفیشنل اور ایماندارہو۔ اب میرے ادارے میں کوئی ایسا ایمپلائی کام کر ر ہا ہے، جو ڈیلیور نہیں کر رہا، اس کی نالائقی کو میں کب تک برداشت کروں گا، ٹیم کو ہر طر ح کے چیلنجز، نت نئی ٹیکنالوجیز سے اپ ڈیٹ رکھیں۔ پالیسیوں کو اپ ڈیٹ کرتے رہے،
دنیا میں دیکھیں کیا کیا نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔ اب ہمارے رورل ایریا میں خواتین کتنا ہاتھ کا کا م کر ر ہی ہیں۔ ان کی پروڈکٹ کو ایکسپورٹ کیا جائے۔ رشوت مافیا سے ہمارا استحصال ہو رہا ہے۔ جب رشوت کا خاتمہ نہیں ہو گا۔ ہمیں اکنامی میں ایسے ہی چیلنجز در پیش رہیں گے۔ اب بلوچستان اور سندھ میں کتنا کول ہے، ہمارے ملک میں مائنگ انڈسٹری نہیں۔ اب ہمارے ملک میں جتنے فروٹس اورسبزیاں ہیں اتنے قدرتی سورسز ہیں ضرورت ہے….یہ کام گورنمنٹ لیول پر کرنے کے ہیں…..گورنمنٹ کو چاہیے ان کے پرائیویٹ سیکٹرز بنا دیں۔ مضبوط پالیسیاں بنانے اور ان پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے، اور سب سے ضروری رشوت خوری کا قلع قمع کیا جا ئے تب ہی ہم معاشی بحران سے نکل سکتے ہیں۔