Warning: Undefined variable $forward in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 78
Warning: Undefined variable $remote in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 84
معروف عالم دین، سکالر، مولانا طارق جمیل
یادداشتیں
تحریر ….. عائشہ شفیق
ممتاز عالمِ دین، سکالر مولانا طارق جمیل جو کسی بھی ”تعریف اور تعارف“ کے محتاج نہیں ….. لفظوں میں ان کی شخصیت کا احاطہ کرنا مشکل بھی اور نا ممکن بھی۔ کیونکہ ان کی شخصیت اپنی مثال آپ ہے …… جنہوں نے اپنے اندازِ بیان کا جادو ….. پورے عالم ِ اسلام ….. میں جگایا ہوا ہے۔ میں ان سے ملاقات کا ٹائم لیکر مقررہ وقت پر ان کی رہائش گاہ پر پہنچی ….. ان کے گھر جانے سے پہلے ذہن میں طرح طرح کے سوالات جنم لے رہے تھے …… دل و دماغ پر عجیب کیفیت طاری تھی ….. کیونکہ جب سے ہوش سنبھالا …. فیملی میں، گھر ….. باہر ہر ایک کی زبان پر ایک ہی نام سنتے چلی آ رہی تھی …..
مولانا طارق جمیل ….. تو ذہن میں سلسلہ زور پکڑتا چلا گیا کہ اس شخصیت سے ملاقات ضرور ہونی چاہئے …. اور پھر ا س طرح کسی عالمِ دین سے ملاقات کا شر ف مجھے پہلی بار حاصل ہو رہا تھا۔ نہ جانے یہ شخصیت کیسی ہو گی ؟؟ کیسے بات ہو گی ؟؟ جب میں ان کے گھر کی دہلیز پر پہنچی ….. تو گھر کے باہر موٹر سا ئیکلوں اور گاڑیوں کا رش۔ جب وہ شہر میں ہوں تو ملاقاتیوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ خیر کچھ دیر مولانا طارق جمیل کی اہلیہ سے بات چیت ہوتی رہی۔ ذہن میں …. تجسس …. کا ….. طوفان …. اٹھ رہا تھا۔ پانچ منٹ انتظار کے بعد پرد ہ ہٹا …. پردے کی اوٹ سے ایک شخصیت داخل ہوئی۔ سفید کرتا شلوار میں ملبوس …… سرخ و سفید رنگت ….. نورانی چہرہ ….. یہ شخصیت تھی ….. مولانا طارق جمیل …… نظریں جھکائے ….. دھیمے لہجے میں بات چیت کرنے کا انداز ….. ان کی شخصیت سے پھوٹنے والی چمک جو واقعی ہر ایک کو خیر ہ کر دیتی ہے۔ ایک ملاقات میں ہی مجھے بہت کچھ جاننے اور سیکھنے کا موقع ملا ….. اگر مولانا طارق جمیل سے جتنی بار بھی ملاقات ہو تو مزید ان کی…… شخصیت ….. کے پرت …. کھلتے چلے جاتے ہیں۔ اور انسان کے …. دل و دماغ …. کے دریچے روشن …..ہوتے چلے جاتے ہیں …. اور میں حیران و ششدر ….. ان کی کہانی سن رہی تھی جو کہ بہت دلچسپ ہے…. ان کا خاندان خانیوال کے قریب آباد تھا ….. یہ لوگ دریائے راوی کے کنارے پر رہتے تھے …. جانگلی کہلاتے تھے …. طارق جمیل ….. کسی نہ کسی طرح پڑھتے پڑھاتے گورنمنٹ کالج تک پہنچ گئے۔ کالج میں وہ …. دنیا دار ….. قسم کے طالب علم تھے۔ نماز، عبادت کے نزدیک نہیں جاتے تھے۔ ان دنوں اقبال ہال میں …. ایک بنگالی طالب علم نے انہیں …. دعوت دی ….. لیکن طارق جمیل ….. نے اسے ڈانٹ کر کمرے سے باہر نکال دیا۔ اس طالب علم کا نام نعیم تھا …. وہ آجکل بنگلہ دیش کا …. مشہور معیشت دان
ہے۔ چند دنوں بعد وہ کسی دوست کے کمرے میں گئے …. وہاں بھی لڑکے بیٹھے ہوئے تھے …. وہ سب مسجد جا رہے تھے …. انہو ں نے طارق جمیل کو بھی دعوت دی …. لیکن انہوں نے انکار کر دیا ….. دوست بضد ہو گئے… اور طارق جمیل کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے …. و ہاں طارق جمیل نے اسی نعیم کو نماز پڑھتے دیکھا۔ مولانا اب اس منظر کا ذکر کرتے ہیں …. تو ان کی آواز میں …. عجیب …. تھرتھراہٹ …. آ جاتی ہے۔ و ہ کہتے ہیں ”میں نے آج تک کسی کو اتنے خوف سے نماز پڑھتے نہیں دیکھا“۔ نعیم کی اس نماز نے طارق جمیل ….. کے اندر ایک نیا دروازہ …. کھول دیا۔ اس رات بھی مسجد سے نماز پڑھے بغیر واپس آگئے۔ لیکن اندر ہی اندر کوئی….. احساس ضرور ….. کروٹ ….. لینے لگا۔ دوسری بار وہ چند دوستوں کیساتھ نیو ہوسٹل کی کینٹین پر بیٹھے تھے۔ اذان ہوئی …. وہی نعیم سیڑھیوں سے گھسیٹ گھسیٹ کر اترنے لگا۔ اس کی ٹانگوں میں کوئی مسئلہ تھا…. جس کے باعث اسے چلنے میں دشوار ی ہو رہی تھی …. وہ ساری سیڑھیاں اترا۔ اس کے بعد برآمدے میں گھسیٹتا ہوا …. مسجد پہنچا۔ طارق جمیل نے اپنے ساتھیوں سے کہا ”دیکھو! یہ شخص اس حالت میں …. اپنے رب….. کے سامنے پیش ہو گیا“۔ لیکن ہم ٹھیک ٹھاک حالت میں نماز نہیں پڑھتے۔ بس یہ فقرہ کہنے کی دیر تھی۔ طارق جمیل کی ذات …. کے سارے دروازے …. کھل گئے۔ وہ مسجد میں داخل ہو گئے ….. آج سالوں گزر چکے ہیں ….. پھر وہاں سے واپس نہیں آئے …. کتنے لوگوں کی زندگیاں بدل گئیں ….. کھلاڑیوں کو ہی دیکھ لیں …. ان کی زندگیاں کیسے بدل گئیں …. تمام دنیا کے مسلمانوں کیلئے مشعل راہ بن گے۔ ایک مثال بن گئے۔ یہ ایک کہانی ہے ….. جب جانگلیوں کے اس بیٹے نے داڑھی رکھی …. جب اس نے میڈیکل کی بجائے …… قرآن و سنت کی تعلیم ….
حاصل کرنا چاہی …. اور جب ا س نے ڈاکٹر بننے کی بجائے …. مولوی بننے کا فیصلہ کیا۔ تو اس کی کتنی اپوزیشن ہوئی۔ دوستوں، رشتہ داروں نے لاکھ سمجھایا۔ ماں باپ نے کتنی منتیں کیں۔ لیکن وہ (ضد) کے پکے نکلے۔ یہاں تک کہ ان کا بستر گو رنمنٹ کالج جیسے…. ماڈرن ادارے سے گول ہوا۔ اور رائے ونڈ کے دیہاتی ….. مدرسے میں جا نکلا۔ یہ طارق جمیل …. اس وقت….. عالم اسلام کے ….. مولانا طارق جمیل ہیں۔ اللہ نے انہیں دین کی رو شنی اور عمل کی طاقت سے نواز رکھا ہے۔ مولانا طارق جمیل پاکستان کے حالات اور مسلمانوں کی حا لتِ زار پر کہتے ہیں ….. ہم لوگوں پر مصیبتیں اور مشکلات کیوں بڑھ گئی ہیں …. اس لئے ہم صرف نام کے مسلما ن رہ گئے ہیں ……. ہم لوگ …. اللہ کے احکامات کو ذبح کر رہے ہیں ….. نماز چھو ڑ دی ہے ۔۔۔۔ تما م بنیادی فرائض سے غافل ہیں۔ مسجدوں میں جانے کی بجائے …. ڈانس پارٹیوں اور فضول سرگرمیوں کا رخ کر لیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ برائی کو برائی ماننے پر تیار نہیں۔ برائیوں اور گناہوں کا میٹھا اور گھناؤنا زہر مسلمانو ں میں ….
سرایت کرتا چلا جا رہا ہے۔ اور ہم گناہوں کی دلدل میں …. دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ جہاں سے واپسی کا رستہ ممکن نہیں۔ یہ سب اس لئے ہو رہا ہے …. مسلمانوں میں اتحاد باقی نہیں رہا …. محبتوں …. رشتوں کا خو ن ہو رہا ہے …. نفرتوں کی آگ نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ معصوم بچوں کے اغواء ، قتل و غارت، بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے ….. برداشت ختم ہو چکی ہے۔ خواتین کی غزتیں پا مال ہو رہی ہیں …. آج امتِ مسلمہ ریت کے ذروں کی طرح منتشر ہو چکی ہے … اتحاد … پارہ پارہ … ہو چکا ہے …. مسلمان ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں …. اور دنیا تماشہ دیکھ رہی ہے …. قیامت سے پہلے قیامت آ رہی ہے …. یہ سب اس لئے ہو رہا ہے …. کہ ہم اللہ کے احکامات سے غافل ہیں ….. حضور صلعم کے بتائے ہوئے طریقوں کو چھوڑ دیا ہے۔