Warning: Undefined variable $forward in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 78
Warning: Undefined variable $remote in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 84
ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے میں خواتین اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔ ڈاکٹر نجمہ افضل خان
ڈاکٹر نجمہ افضل خان، صدر شعبہ خواتین مسلم لیگ (ن) فیصل آباد، چیئرپرسن سٹینڈنگ کمیٹی، ہیلتھ ویمن چیمبر فیصل آباد، سابق ایم پی اے
انٹرویو ….. عائشہ شفیق
سیاست کی ذمہ داری کو اگر نیک نیتی سے ادا کیا جائے اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کئے جائیں …… تو سیاست عبادت کا د رجہ رکھتی ہے، سیاست کے میدان میں آنے میں میرے خاوند رانا افضل خان کا بہت زیادہ کردار ہے انہوں نے ہر قدم پر میری بہت حوصلہ افزا ئی کی ….. میں آج جس مقام پر ہوں اللہ کی رحمتوں کے بعد اپنے (مرحوم) خاوند رانا افضل خان کیوجہ سے ہوں۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر نجمہ افضل خان صدر شعبہ خواتین فیصل آباد مسلم لیگ (ن) نے ہمیں دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو کے دوران کیا۔
ڈاکٹر نجمہ افضل خان فیصل آباد میں گذشتہ کئی سالوں سے سیاست میں ہمہ وقت متحرک نظر آتی ہیں ….. ڈاکٹر نجمہ افضل خوبصورت، خوش اخلاق، خوش لباس …… سادہ مزاج….اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باہمت شخصیت کی مالک ہیں۔ باہمت خاتون اس لئے کہ ….. اپنے خاوند کی وفات کے بعد انہوں نے ہمت نہیں ہاری ….. بلکہ زیادہ ہمت اور حوصلے سے بیک وقت کئی شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کو صرف کر رہی ہیں ….. ان کا کہنا ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود کے کام اور انسانیت کی خدمت ایک صدقہ جاریہ ہے جس کو میں نیک نیتی سے ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہوں ….. انہوں نے اپنے سابقہ ایم پی اے دور میں مثالی خدمات سر انجام دیں اور اب کے دورِ اقتدار میں بھی صحت اور دیگر شعبوں میں سرگرم عمل رہتی ہیں۔ ا ن کی خدمات اس تفصیلی انٹرو یو میں آپ کے سامنے پیش ِ خدمت ہے۔
س:۔ میڈم آپ کب سے سیاست میں ہیں ؟
ج:۔ میں 10 سال اوورسیز پاکستان رہی ہوں، 10 سال میں سعودی حکومت کے محکمہ صحت میں بحیثیت جنرل پریکٹیشنز کے طور پر کام کیا ہے۔ میر ے خاوند رانا افضل خان الیکٹر یکل انجنیئر تھے۔ انہوں نے بحیثیت چیئر پرسن ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کیا، دراصل سیاست میں آنے کا خواب رانا افضل کا تھا وہ چاہتے تھے کہ ہم دونوں پروفیشنل زندگی گزاریں، زندگی کے 10 سا ل کام کر کے کچھ سرمایہ لا کر پاکستان میں سیٹل ہو گئے اور پھر انہی کا شوق اور جذبہ تھا کہ وہ سیاست میں آ کر اپنے ملک کے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کریں۔ یہ بڑا مشکل فیصلہ تھا ….. لیکن میں نے گورنمنٹ جاب سے استعفیٰ دیا اور پھر ہم نے واپس آ کر
رانا افضل کے آبائی شہر فیصل آباد میں 4کروڑ کی لاگت سے ساحل ہسپتال بنایا جو 100 بیڈ پر مشتمل تھا اور ہم دونوں نے ملکر اس کو بخوبی چلایا۔ اور شہر میں ہماری ایک اچھی پہچان بن گئی۔ یہ شہر کا پہلا پرائیویٹ ہسپتال تھا اور اچھی شہر ت پائی۔ 1997ء میں رانا افضل نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی اور قیادت نے انہیں ایم پی اے کا ٹکٹ دیا اور انہوں نے اپنے آبائی حلقہ (این اے 82) سے پہلا الیکشن لڑا میں نے اس الیکشن میں ان کا بھرپور ساتھ دیا اور خواتین کی ایک متحرک ٹیم بنا کر ڈور ٹو ڈور الیکشن کمپین چلائی۔ حلقے میں خواتین کو ملی اور ان کے مسائل سے آگاہ ہوئی۔ اس طرح سے پورے حلقے کی خواتین سے روابط ہوئے اور رانا افضل خان اپنا پہلا الیکشن 25000 ووٹوں کی لیڈ سے جیت گئے۔
جس کے بعد خواتین گاہے بگاہے اپنے مسائل لیکر آتیں اور میں ان کے مسائل حل کرواتی۔ اس طرح سے مجھے بھی سیاست میں دلچسپی ہوئی۔ میں سمجھتی ہوں کہ اگر سیاست کو نیت نیتی سے کیا جائے اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کئے جائیں تو سیاست عبادت کا درجہ رکھتی ہے …… یہی سوچ میرے خاوند رانا افضل کی تھی …… اسی سوچ کیساتھ رانا افضل خدمتِ خلق میں مصروف ہو گئے اور مجھے بھی سیاست میں دلچسپی ہو گئی اور میں نے بھی باقاعدہ مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر لی اور میں مسلم لیگ (ن) کی سنیئر نائب صدر، فیصل آباد سٹی شعبہ خواتین منتخب ہوئی۔ 2002ء میں پارٹی نے مجھے صوبائی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کا ٹکٹ دیا پھر 2013ء میں پنجاب اسمبلی کی ممبر اسمبلی بنی اور اس طرح پھر سیاست کا سفر بھرپور انداز میں شروع ہوا۔
س:۔ ڈاکٹری کے شعبے کو بھی ساتھ لیکر چل رہی ہیں ؟
ج:۔ جی بالکل! میں صحت کے شعبے میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہوں، میں ساحل ہسپتال فیصل آباد کی (سی ای او) ہوں۔ اس کے ایڈمنسٹریشن معاملا ت کو دیکھ رہی ہوں۔ اس کے علاوہ دورانِ سیاست بھی مجھے ہیلتھ کے شعبوں کو اپ گریڈ کرنے کے مواقع ملے …. میں پنجاب میڈیکل کالج کی بورڈ آف مینجمنٹ کی 6 سال ممبر رہی ہوں اور چیئر پرسن بھی رہی۔ جس کی وجہ سے اس پلیٹ فارم پر مجھے موقع ملا کہ میں شہر کے تین ہسپتال الائیڈ ہسپتال، ڈی ایچ
کیو ہسپتال اور جنرل ہسپتال غلام محمد آباد کو اپ گریڈ کیا۔
اور فیصل آباد کے تین بڑے ہسپتالوں میں ”ڈے کیئر سنٹر“ میرے زیرِ نگرانی بنے۔
ان تمام پروجیکٹس کیلئے پنجاب گورنمنٹ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے فنڈز جاری کئے۔
س:۔ ڈاکٹر اور سیاست کی اہم پوزیشن میں ہوتے ہوئے آپ نے میڈیکل کے شعبے کو بہتر سے بہتر کرنے میں کیا کردار اد ا کیا ؟
ج:۔ میرے بڑے میگا پروجیکٹ یہ تھے۔
الائیڈ ہسپتال
پچپن بستروں پر مشتمل برن یونٹ پنجاب گورنمنٹ پاکستان مسلم لیگ (ن)، 60 بستر وں پر مشتمل، نوزائیدہ بچوں کیلئے یونٹ، 9 بستر پر مشتمل (آئی سی یو ) پنجاب گورنمنٹ پاکستان مسلم لیگ (ن)، 50 بستر وں پر مشتمل ایمرجنسی (ڈونیشن)، ڈائیگونیسٹکس سنٹر بریسٹ کینسر کیلئے۔ ۔
یہ پراجیکٹ بر یسٹ کلینک کیلئے میری کاوشوں سے شروع ہوئے ….. 10کروڑ لاگت پنجاب حکومت سے لیکر ایک چھت کے نیچے میمو گرافی، الٹرا ساؤنڈ، پیتھا لوجی لیب، لیبارٹری، سرجن، پیتھالوجسٹ کی سہولت موجود ہے اور ماہانہ پانچ ہزار مریض اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ پنجاب میڈیکل کالج کی پیتھا لوجی ڈیپارٹمنٹ کو 3کروڑ کی لاگت سے لیبارٹری ایکوپمنٹ مہیا کئے۔ ”ڈی ایچ کیو ہسپتال“ فیصل آباد میں 100 بیڈ کا کڈ نی سنٹر پنجاب حکومت کی مدد سے بنوایا جہاں 33 ڈایلسز مشینیں انسٹال کروائیں اور مفت ڈائلسز شروع کروائے۔
جنرل ہسپتال غلام محمد آباد فیصل آباد میں 100 بیڈ سے اپ گریڈ کر کے 200 بیڈ بنوائے جہاں تمام سہولتیں یعنی سرجری، میڈیسن، گائنی، اطفال، پیتھالوجی، ای این ٹی آئی، پیتھا لوجی وغیرہ کا آغاز کروایا۔ پی جی ٹریننگ شروع کروائی، 4 تھیٹرز، سی ٹی سکین ڈیجیٹل ایکسرے، انسنریٹر انسٹال کروائے۔ پنجاب لیول پر بھی ہیلتھ میں کام کیا۔ ”Infant feeding board punjab“ کی ممبر رہی اور پنجاب کی ”بریسٹ فیڈنگ کمیٹی“ کی چیئر پرسن تھی ….. میں نے ما ؤں میں بریسٹ فیڈنگ کی افادیت اور شعور کی آگہی کیلئے پروگرام کئے، فیصل آباد میں فیملی پلاننگ کی ٹریننگ کروائی تاکہ بچوں کے درمیان وقفہ زیادہ ہو جو ماں اور بچے دونوں کی صحت کیلئے ضروری ہے ….. میں پچھلے چار سا ل سے فیصل آباد ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ہیلتھ کمیٹی کی چیئر پرسن ہوں اور خواتین کی صحت کے حوالے سے سیمینار کرواتی رہتی ہوں اور میڈیکل کیمپ بھی لگواتی رہتی ہوں اور میں فیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ ممبر بھی رہ چکی ہوں…. اپنے سابقہ ایم پی اے دور میں دنیا بھر کے کئی ممالک میں ہیلتھ سیمینارز پر لیکچر دے چکی ہوں۔
س:۔ میڈم! گھر، ڈاکٹر اور سیاست ….. سب شعبوں کو بیک وقت کیسے مینج کر لیتی ہیں ؟
ج:۔ جب آپ ورکنگ ویمن ہوں تو آپ کو ڈبل محنت کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے …. گھر کے کاموں یا ذمہ داریوں سے آپ کو چھوٹ نہیں مل سکتی، اس کیلئے ٹائم مینجمنٹ احسن طریقے سے کرنی پڑتی ہے اور آپ کو زیادہ محنت بھی کرنا پڑتی ہے، میں شروع سے ورکنگ ویمن تھی …. بچوں کو ہمیشہ کوالٹی ٹائم دیا، اپنی فیملی کے تمام معاملات کو اچھے طریقے سے نپٹاتی ہوں میرے خاوند نے اپنی زندگی میں ہر قدم پر میرا بھر پور ساتھ دیا با ہر کے ممالک میں اور واپس پاکستان آ کر مجھے ہمیشہ ہیلپر میسر رہی، ڈرائیور، گاڑی کی سہولتیں ہمیشہ سے ساتھ رہیں …. جس کیوجہ سے میں اپنے گھر اور باہر کے کاموں کو بیک وقت اچھا سا مینج کر لیتی ہوں اگر خاوند سپورٹیو ہو تو زندگی بہت آسان ہو جاتی ہے …… بچے بھی کچھ بڑے ہوئے تو میں
نے سیاست میں قدم رکھا۔
س:۔ ویسے تو ہر شعبے میں خواتین کو اپنے آپ کو منو انے کیلئے کافی تگ و دو کرنا پڑ تی ہے اور خاص کر سیاست میں، جیسے آپ ماشاء اللہ سے ( ایم پی اے ) بھی رہ چکی ہیں اور آپ اب فیصل آباد خواتین ونگ مسلم لیگ (ن) کی صدر بھی ہیں …. یہاں تک کے سفر میں پہنچنے کیلئے کافی محنت کرنی پڑی۔ آپ کو خود کو شوق اور جنون تھا، یہ سب کیسے ممکن ہوا ؟
ج:۔ جی ! اپنے آپ کو منوانے کیلئے بہت محنت کرنی پڑتی ہے، سیاست کا سفر بہت کٹھن ہوتا ہے …. یہ ایک ”تھینک لیس“ جاب ہے آپ جتنا بھی ان پُٹ ڈال لیں وہ کم ہے۔ دراصل عوام اتنی مشکلات کا شکار کہ آپ چاہو تو بھی تو ہر مسئلے کا حل نہیں دے سکتے۔ جب آپ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) شعبہ خواتین کی صدر بننے کا سفر بہت طویل اور کٹھن ہے۔ میں نے 15 سال سنیئر وائس پریزیڈنٹ کے طور پر کام کیا۔ اس دوران ہر الیکشن میں پارٹی امیدوار کی اپنی ٹیم کے ساتھ ڈور ٹو ڈور کمپیئن کی، جب بھی جب بھی پارٹی نے پروٹیسٹ، ریلی یا جلسے کی کال دی اس کیلئے خواتین کی بھر پور ٹیم کیساتھ شمولیت اختیار کی …… خواتین کو سیا سی طور پر متحرک رکھا۔ ان کا ایک نیٹ ورک بنایا،
ان خواتین کو سیاسی شعور دیا۔ اپنے پارٹی منشور کارکردگی اور و وٹ ڈالنے کی اہمیت کے بارے میں آگہی دی۔ اس طرح بہت سی خواتین کو سیاسی دھارے میں لا کر پارٹی کی مضبوطی کیلئے کام کر رہی ہوں۔ مجھے خود بھی سیاست میں دلچسپی پیدا ہوئی کیونکہ اس میں رانا افضل کا بہت بڑا ہاتھ ہے وہ ہمیشہ ہی میری بہت حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ آج میں جس مقام پر ہوں انہی کا لگایا ہوا پودا ہوں۔ میں یہ نے یہ سفر رانا افضل کی وفات کے بعد بھی جاری رکھا اور خواتین کی فلاح و بہبود کیلئے کام کر رہی ہوں او ر کرتی رہوں گی انشاء اللہ۔ اب میرے بچے بڑے ہو گئے ہیں میرے اوپر اب انکی زیادہ ذمہ داریاں نہیں اور میرے بیٹے اور بیٹیاں فل سپورٹ کرتے ہیں کہ امی کو اگر سیاست کا شوق ہے تو انہیں فری ہینڈ دیا جائے، میں ایک محنتی عورت ہوں اور کام سے نہیں گھبراتی۔ ہر ذمہ داری کو خوشی سے پورا کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ مریم نواز شریف نے پورے فیصل آباد شہر کی تنظیم سازی کا پروگرام دیا ہم نے پی پی لیول اور 156 سی سی فیصل آباد کی تنظیم سازی بخوبی مکمل کی، خواتین کو متحرک کیا اور پا رٹی کا پیغام گھر گھر پہنچانے کا کام کیا اور ماہانہ اجلاس کا اہتمام کرتی ہوں اور خواتین کی حوصلہ افزائی کرتی ہوں۔
س:۔ خواتین کی صحت کےایشوز کو سامنے رکھتے ہوئے فیصل آباد اور گرد و نواح کے پسماندہ ایریاز میں خواتین کیلئے کوئی پلاننگز یا عملی طور پر کیا اقدامات ہونے جا رہے ہیں ؟
ج:۔ جی میں سمجھتی ہوں کہ اس وقت خوش قسمتی سے ہمارے صوبے پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز شریف ہیں وہ خواتین کیلئے ہیلتھ سیکٹر میں بہت سے اقدامات کر رہی ہیں۔ سب سے پہلے تو انہوں نے ”ایئر ایمبولینس“ کا اعلان کیا اور اس پروجیکٹ کو مکمل کر د یا …… ایمر جنسی کی حالت میں مریضہ کو تمام سہولیات دے کر اسے طبی مرکز تک پہنچایا جائے پھر ”کلینکس اُون ویلز“ کا ا فتتاح کیا۔ جہاں ایسے دور دراز علاقوں میں طبی سہولیات نہیں وہاں کلینک عوام کی دہلیز پر طبی سہولتیں میسر کرے۔ جس میں ڈاکٹرز، ایمر جنسی علاج کی سہولت، اور ادویات کی فراہمی ہو گی۔ وزیراعلیٰ ”کلینکس اُون ویلز“ کا دائرہ مزید اضلاع میں بڑھانے کا پروگرام دیا ہے اس وقت 7 ا ضلاع میں یہ کام کر
رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر ”ڈی ایچ کیو ہسپتال“ میں
خواتین کی اچھی صحت کیلئے سپورٹس یعنی کھیلوں کے فروغ کا عندیہ دیا ہے۔ کالجوں اور یو نیورسٹیوں میں ”پنک گیمز“ کا اجراء ہوا ہے۔ اور سپورٹس فنڈز کو بڑھایا گیا ہے، سپورٹس ایڈوائزری کمیٹی کو بھی قائم کیا گیا ہے، کھیل انسانی جسم کی صحت کیلئے مفید ہوتے ہیں۔ میں جب دارالامان کی فوکل پرسن تھی تو میں نے فیصل آباد میں لیڈیز جم بنوایا تھا جہاں خواتین ورزش کرتی تھیں اور ان کی صحت پر ا چھے اثرات مرتب ہوتے تھے۔
س:۔ میڈم جی! آپ کو اتنا طویل عرصہ ہو گیا سیاست میں …… خواتین کے کیا مسائل اب تک حل ہوئے، ان کے مسائل کی کہاں تک شنوا ئی ہوئی ؟
ج:۔ جی جب میں پہلے ”ایم پی اے“ تھی اور ویمن کرائسز سنٹر شہید بے نظیر بھٹو ویمن ہیومین رائٹ حکومتی ادارے کی 2008ء سے ممبر چیئر پرسن رہی اور اب تک ان سے منسلک ہوں ….. اس ادارے کو میں نے سکریچ سے شروع کیا، اس کو با قاعدہ حکومتی بلڈنگ اسلام نگر میں منتقل کروایا، وہاں ڈے کیئر سنٹر بنوایا۔ اس ادارے میں ایسی خواتین جو گھریلو تشدد کا شکا ر ہوں ….. میاں بیوی کی لڑائی یا طلاق، خلع کا مسئلہ ہو، بچوں کی کسٹڈ ی کا معاملہ ہو، جہیز کی واپسی یا د یگر جائیداد اور خرچہ کا معاملہ ہو …. یہاں خواتین کی مفت کونسلنگ کی جاتی ہے …… مفت و کیل کی سہولت موجود ہے، آپس میں صلع صفائی کروائی جاتی ہے، نفسیاتی کونسلنگ بھی کی جاتی ہے۔ ضرورت مند خواتین کو سلائی مشینیں یا اور بھی ضروری امداد بھی کی جاتی ہے۔ بے سہارا خواتین کو دارالامان بھیج دیا جا تا ہے۔ ڈاکٹر نجمہ افضل نے انٹرویو دیتے ہوئے مزید کہا کہ میں عرصہ 4 سال سے خواتین چیمبر فیصل آباد کی ”ایگزیکٹو ممبر“ او ر ”چیئرپرسن سٹینڈنگ ہیلتھ کمیٹی بھی ہوں …. اس کے حوالے سے خو اتین کو ان کے ہیلتھ ایشو ز کے بارے میں آگاہی پروگرام کرواتی رہتی ہوں، میڈیکل کیمپ بھی لگائے جاتے ہیں اور خواتین کو ادویات کی فراہمی بھی کی جاتی ہے۔ میں ”آل پاکستان ویمن ایسوسی
ایشن“ (این جی او) کی ایگزیکٹو ممبر 2016ء سے ہوں ہم اس ادارے میں فنڈ ریزنگ کرتے ہیں اور اس میں ہنر سنٹر بنایا گیا ہے۔ جہاں خواتین کو ہنر سکھایا جاتا ہے ….. جیسے کمپیوٹر ٹریننگ، سلائی، بیوٹی پارلر، کڑھائی اور کٹنگ وغیرہ کی ٹریننگ دی جا رہی ہے، ویمن ایمپاورمنٹ ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر نجمہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں فیصل آباد ڈویژن کی اوقاف جہیز کمیٹی کی چیئر پرسن بھی رہی ہوں …… جس سے ہز اروں بچیوں کو جہیز فنڈ دیئے گئے اور وہ مستفید ہوئیں۔ چیمبر ویمن فیصل آباد کی ممبر ہوں اور اس پلیٹ فارم سے بھی ہم ویمن ایمپاورمنٹ کیلئے کام کر رہے ہیں ….. خواتین کو ہنر مندی کی ٹریننگ دی جا رہی ہے او ر جو خواتین اپنے چھوٹے، بڑے یا میڈیم بزنس کرنا چاہتی ہیں ان کی کیپسٹی بلڈنگ کی جاتی ہے ان کو ڈیجیٹل ٹریننگ دی جاتی ہے۔ آن لائن بزنس کا شعور اور طریقہ کار سکھانے کیلئے ورکشاپس کی جاتی ہیں اور بہت سے سیمینارز کے ذریعے بزنس فروغ دینے کی مہارت بارے تربیت دی جاتی ہے۔ خواتین کی بنائی ہوئی چیزیں مثلاً لباس، ہینڈی کرافٹ، پینٹنگ، جیولری، بیڈ لیلنن اور دیگر گھریلو اشیاء کی ایکسپو نمائش کروائی جاتی ہے۔ تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو اور ان کیلئے نئے راستے کھلیں ….. مختلف شہروں کے ویمن چیمبر کیساتھ ’’ایم او یو “ سائن ہوتے ہیں تاکہ خواتین کی بنائی ہوئی چیزوں کو دوسرے شہروں میں بھی متعارف کروایا جائے، اور یہ ویمن چیمبر خواتین کو ا یمپاور کرنے کا بہتر ین پلیٹ فارم ہے اور میں اس کی ٹیم میں شامل ہوں۔ (1213) ”ویمن پولیس ہیلپ لائن“ …. اس کا آ غاز فیصل آباد میں میں نے کیا اور کوتوالی تھانہ ویمن پولیس اسٹیشن میں اس ہیلپ لائن کا دفتر بنایا …. انچارج پولیس آفیسر اور 2 لیڈی تعینات کی گئیں کسی بھی عورت کیساتھ تشدد یا مسئلے کے فوری حل کیلئے فیصل آباد کی خواتین اس نمبر پر کال کر کے مدد حاصل کرتی تھیں۔ لیکن ہیلپ لائن پولیس خدمت ِ مرکز میں منتقل ہو گئی ہے اور آج بھی استعمال ہو رہی ہے۔
س:۔ خواتین کی اکثریت جو ملازمت پیشہ نہیں …. جن کے پاس ہنر ہے اور اکثریت پسماندہ علاقوں میں خواتین جو بیوہ یا بھی خواتین جن کے پاس کوئی روزگار کا سلسلہ نہیں ….. اور آجکل کے دور میں دو وقت کی روٹی کھلانی بچوں کو مشکل سے مشکل تر ہو گئی، کیا کہیں گی ؟
ج:۔ خواتین جو کم تعلیم یافتہ ہیں یا ملازمت نہیں کر سکتیں لیکن معاشی طور پر کمزور ہیں، روزگار کا بھی کوئی سلسلہ نہیں ایسی خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے جو پسماندہ حالات میں زندگی گزا ر رہی ہیں ان کیلئے میں کہوں گی کہ 70 فیصد خواتین کی آبادی دیہی اور دور دراز علاقوں میں رہتی ہے ….. حکومت وقت کو ان کے حالات بہتر کرنے کیلئے پالیسیاں لانی ہونگی۔ سب سے پہلے بچیوں کی تعلیم لازمی قرار دی جائے
حکومت اس کیلئے وظیفہ مقرر کرے اور یونین کونسل میں لڑکیوں کا سکول بنایا جائے اور اس میں سکول بس دی جائے۔ ڈاکٹر نجمہ افضل نے اس کے جواب میں مزید کہا کہ جو ہنر مند عورتیں ہیں ان کے پاس سرمایہ نہیں ان کیلئے حکومت کو چاہئے کہ آسان اقساط پر قرضے دیئے جائیں جس سے وہ کوئی کاروبار شرو ع کر سکیں۔ جو عورتیں زراعت کا کام کرتی ہیں، فصل کٹائی کر کے پیسے کماتی ہیں ان کی کیپسٹی بلڈنگ کی جائے تاکہ وہ اپنے کام کو نئی مہارت کیساتھ بہتر سے بہتر کر سکیں ….. ان کو بھی فصل اگانے کیلئے قرضے دیئے جائیں …. دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین کو حکومت لائیو سٹا ک میں مدد کرے، یعنی آسان شرائط پر بھیڑ، بکریاں، گائے، مرغیاں اور بھینسیں دی جائیں تاکہ وہ اس سے کاروبار اور روزگار کا ذریعہ بنا سکیں۔ خواتین جو ملک کی 52 فیصد آبادی ہیں ان کو اس قابل بنانا ہو گا کہ وہ شانہ بشانہ چل کر ملک کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کر سکیں ….. یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ملک کی معیشت کو بہتر کرنے کیلئے خواتین اپنا کردار ضرور ادا کریں۔
س:۔ مہنگائی کو کہیں بریک نہیں لگ رہی، عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے، بنیادی ضروریاتِ زندگی ہی انتہائی مشکل ہو چکی ہیں ہر طرف مسائل ہی مسائل، مڈل کلاس بھی پس رہی ہے اور نچلی سطح پر گلی محلوں کے مسائل دیکھ لیں ؟
ج:۔ جی میں اس سے بالکل مکمل اتفاق کر تی ہوں ملک اس وقت انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے اور اس کے بہت سے اسباب ہیں ایک منظم سازش کے تحت اس ملک کو غیر مستحکم کیا جا رہا ہے …. جس کے نتیجے میں معاشی استحکام بھی قائم نہیں ہو پا رہا…. بیرونی طاقتیں بھی اس کھیل میں شامل ہیں ہمارے ملک میں جمہوریت کو کبھی بھی صحیح معنوں میں چلنے ہی نہیں دیا گیا، بھارت ہمارے ساتھ آزاد ہوا لیکن معاشی طور پر ہم سے بہتر ہے۔
ایک اچھی بھلی حکومت کے وزیراعظم کو عدلیہ کے ایک غلط فیصلے کے نتیجے میں ہٹا دیا گیا۔ عدلیہ نظریہ ِ ضرورت کے تحت احکامات جاری کرتی ہے، جس سے ملک کو نقصان پہنچتا ہے …… وہ دن جب ہمارے قائد کو ہٹا یا گیا ….. پاکستان ترقی کی پٹڑی سے اکھڑ گیا، پھر آئی ایم ایف کے معاہدے پر عمل نہ کیا گیا …… اب ہماری حکومت معیشت کی بحالی میں مصروفِ عمل ہے ….. معاشی حالات ہی اس قدر گھمبیر ہیں کہ نمٹنے کیلئے وقت درکار ہے، آئی ایم ایف کی سخت شرائط ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ملک کہیں ڈیفالٹ نہ ہو جائے ….. عوام مہنگائی سے پریشان ہے لیکن ہمیں یہ مشکل وقت صبر اور تحمل سے گزارنا ہو گا ۔۔۔ اس کیلئے میری رائے حکومتِ وقت کیلئے بھی یہی ہے کہ حکومتِ وقت کو بھی سادگی اپنا نی چاہئے …. مختصر وفد ضروری مقاصد کیلئے باہر کے ممالک لیکر جائیں، دفتروں میں سادگی اپنائی جائے
….. ا فسر شاہی کو بھی بے دریغ خرچے کرنے پر پابندی لگائی جائے …. مفت پٹرول کے خرچے کنٹرو ل کئے جائیں …. ہر چیز اپنی حدود میں رہ کر خرچ کی جائے …… چا ر چار گاڑیاں ایک ایک افسر کو رکھنے کی اجازت نہ دی جائے …. جب تک ہمارا حکومتی طبقہ اور بیو رو کریسی سادگی کی روش اختیار نہیں کرتے ….. حالات بہتر نہیں ہو سکتے ….. لیکن ہمیں مایوس بھی نہیں ہو نا چاہئے ….. قوموں پر بڑے بڑے مشکل وقت آتے ہیں، لیکن جب محنت، لگن، نیک نیتی اور وطن کی محبت کا جذبہ ہو تو قومیں دوبارہ اٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔ جیسے جاپان کا شہر ہیروشیما اٹیمی بمباری کیوجہ سے مکمل تباہ ہو ا …. لیکن اس قوم نے ہمت نہ ہاری او ر ایمان دار ی سے ملک کی تعمیر میں دوبارہ لگ کر کامیاب ہو گئے۔ اس وقت کم از کم دو سال کا عرصہ چاہئے، معیشت کی زبوں ح الی کو درست کرنے کیلئے۔ کاروباری حضرات ٹیکس ادا کرنے کی عادت ڈالیں اور قوم کو اس شکنجے سے نکالنے میں مدد کریں۔
س:۔ خواتین ہمارا مستقبل ہیں، ان کی زندگی آسان ہو گی ان کی صحت اور دیگر مسائل کے حوالے سے بہتر سے بہتر اقداما ت کئے جائیں گے تو ملک ترقی کرے گا ؟
ج:۔ جی بالکل! میں نے پہلے ہی اس بات کا ا ظہار کیا ہے کہ ملک کی خواتین کی آبادی 52 فیصد ہے اور جب تک ان کے بنیادی حقوق تعلیم، صحت، معاشی مضبوطی اور سیاسی دھارے میں ان کی شمولیت کا خیال نہیں رکھیں گے تو یہ ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ ہمیں اتنی بڑی خواتین کی آبادی کو فعال کر نا ہو گا …. ویمن ایمپاورمنٹ سے ہی قوم ترقی کرے گی او ر ا نشاء اللہ مجھے امید اور یقین ہے کہ یہ حکومت خواتین ایمپاورمنٹ پر خصوصی توجہ دے گی اور ایسی پالیسیاں بنائے گی کہ خواتین کے حالات بہتر ہو جائیں گے۔
س:۔ ہمارے ملک کو آپ کے نزدیک کیا کیا چیلنجز در پیش ہیں اور ان کا حل آپ کیا دیکھتی ہیں ؟
ج:۔ اس وقت ہمارے ملک کو جو چیلنجز در پیش ہیں وہ ہیں ملک میں معیشت کی بحالی، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنا، مہنگائی کنٹرول کرنا، گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابو پانا، جعلی ادویات پر پابندی لگانا، ملک میں دوبارہ دہشت گرد ی کی لہر کو فوراً کنٹرول کرنا نہایت اہم ہے۔ ڈاکٹر نجمہ افضل نے اس سوال کے جواب میں مزید کہا کہ خواتین کو ایمپاور کرنے کیلئے جو پالیسیز بنائی جائیں ان پر عمل درآمد ہو۔ میری نظر میں ان تمام مسائل کا حل جو حکومت کی پالیسیاں بنیں ان پر سختی سے عملد رآمد ہو اور اسے مانیٹر کیا جائے، ڈیٹا بنایا جائے کہ کہاں کام شروع ہو ا ہے ….. اہداف کیا ہیں اور کتنی مدت میں پورا کیا جائے گا سب ریکارڈ موجود ہو اور ماہانہ بنیادوں پر رپورٹ جاری ہو اور پھر عمل درآمد کو سختی سے جاری کیا جائے۔
س:۔ تعلیم سیاست کے میدان میں کتنی ضروری ہے ؟
ج:۔ تعلیم زندگی کے ہر مید ان کیساتھ کیساتھ سیاست کے شعبے میں بہت ضروری ہے ….. باشعور اور پڑھی لکھی خواتین جب سیاست میں آئیں گی تو اسمبلی کا ماحول بھی تبدیل ہو گا ….. اور تعلیم یافتہ سیاسی خواتین عوام کی فلاح و بہبود اور معاشرے کی ترقی میں بہت بہتر انداز میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں اپنا مثبت اور تعمیری کردار ادا کر سکتی ہیں۔
س:۔ میڈم ! آپ ماشاء اللہ سے کافی خوبصورت اور پرکشش شخصیت کی مالک ہیں دادی اور نانی بھی ہیں … بھر پور شخصیت کا کیا راز ہے ؟
ج:۔ یہ تو آپ کا حسنِ نظر ہے ورنہ میں تو ایک عام انسان ہوں ….. بہت سادی طبیعت ہے، کبھی کوئی پروٹوکول نہیں رکھتی۔ عوام میں گھل مل کر رہتی ہوں جو باہر سے نظر آتی ہوں ویسے ہی اندر سے ہوں۔ میں نے ہمیشہ جو کام اپنی زندگی میں کیا جو ذمہ داری مجھے دی گئی وہ بیٹی، ماں، بیوی، ورکنگ ویمن خواہ سیاسی ہو یا سماجی ….. میں نے بہت نیک نیتی سے نبھائی۔ صاف گوئی اور کسی کو کو ئی نقصان نہ پہنچانا، کسی کے خلاف غلط بیانی، یا کسی کے کام میں رکاوٹ نہیں ڈالی۔ کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہیں کی۔ ہمیشہ ہر کام میں مثبت رویہ رکھا اور منفی سوچ اور شرارتی ذہن نہیں رکھا۔ شاید یہی میری شخصیت کا حسن جو دوسروں کو دِکھتا ہے۔
ڈاکٹر نجمہ افضل نے اپنے اچھی صحت …… خوبصورتی اور سمارٹنس کا راز بتاتے ہوئے کہا کہ میں سادہ غذا کھاتی ہوں، سبزیاں، دالیں، سلاد یا مو سمی پھل پسندیدہ ہیں۔ گوشت سے پرہیز کرتی ہوں۔ اور میری سوچ بھی یہی ہے کہ زندگی ایک بار ملتی ہے ہر پل کو اچھے طر یقے سے گزارو کسی کے کام آجاؤ تو بہترین ہے۔ اپنے بچوں اور ان کے بچوں کو انجوائے کرتی ہوں۔ زندگی میں سیاحت کا شوق رہا وہ میں نے شوق پورا کیا۔ یورپ، امریکہ، سعودی عرب، برطانیہ، جرمنی، آسٹریا، ناروے، ہالینڈ، اٹلی، فرانس، ترکی، جاپان، کوریا، مصر، دوبئی، سری لنکا، نیپال، انڈیا، بنگلہ دیش، آسٹریلیا، چائنہ کے دورے کر چکی ہوں۔
س:۔ آپ کی ڈرسینگ خوبصورت، مہذب، اور منفرد ہوتی ہے۔ اس کیلئے بھی آپ خو د سے ہی وقت نکالتی ہیں، اتنی مصروف لائف میں سب کیسے ممکن ہے ؟
ج:۔ سکول کے زمانے سے ہی مجھے اچھا اور منفرد لباس پہننے کا شوق تھا۔ سکول، کالج اور میڈیکل یونیورسٹی میں ہمیشہ سکالر شپ ملا۔ اس لئے اپنے پیسوں سے شاپنگ کا شوق۔ پھر اپنے بہن بھائیوں کیلئے تحائف خریدنے کا شوق رہتا تھا۔ اچھی جیولری کا بھی شوق رہا۔ میں ا س کیلئے خود ہی وقت نکالتی ہوں میری 2 بیٹیاں ہیں ایک یو کے میں او ر امریکا میں ہو تی ہیں …. ان کیلئے بھی شوق سے کپڑے تیار کرواتی ہوں ڈیزائنر
سے بھی لے لیتی ہوں اور خود بھی اپنے ذہن سے تیار کروا کر زیادہ خوشی محسوس کرتی ہوں۔ میری بیٹیاں اب میری دوست جیسی ہیں اور میں ہر بات ان سے شیئر کرتی ہوں میری بہوئیں بھی میری بیٹیوں جیسی ہیں …. ان کیساتھ بھی میری بہت دوستی ہے۔ ساس بہو والا سین نہیں ہے۔ ہر عید پر تمام بچوں کے اور ان کے بچوں کے کپڑے شوق سے بناتی ہوں۔ اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں …… اللہ تعالیٰ اسطرح ان نعمتوں اور بہاروں کو قائم دائم رکھے …. یہی حقیقی خوشیاں ہیں۔