Warning: Undefined variable $forward in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 78
Warning: Undefined variable $remote in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 84
ُ”محمد صلعم ہمارے زمانوں کے پیغمبر“
کیرن آرمسٹرونگ
تحقیق و ترجمہ، خالد محمود خان
تحریر…پروفیسر ، ماہر تعلیم عابدہ فیاض، نیویارک
کبھی کبھی خوش قسمتی فون سے بھی دستک دیتی ہے۔ ایسا ہی میرے ساتھ بھی ہوا، مجھے ایک مہربان آواز نے مخاطب کیا کہ کیا آپ نبی رحمت العالمین پر کوئی کتاب پڑھنا چاہیں گی؟ سیرت پاک میرا از لی شوق رہا ہے…. میرا بے اختیار جواب تھا سر ضرور کیو ں نہیں ؟ سوال کا دوسرا حصہ تھا کہ کیا اس کتاب کے بارے میں کچھ لکھیں گی۔ اب میرے بہت حیران ہونے کی باری تھی۔ کہاں وہ ہستی کہ خدا ان پر درود بھیجتا ہو اور صاحبانِ ایمان کو حکم بھی دے رہا ہو، فرشتے جس ہستی کی تعریف میں ہمہ دم رطب اللسان ہوں….. جس کا ذکر اللہ رب العزت نے اپنے ذکر کیساتھ بلند فرمایا ہو ….. میرے جیسے ایک پر تقصیر انسان جو حرف و صوت میں بھی تہی دامان ہو، وہ کیا لکھ سکے گا۔ انکار بھی تو ممکن نہیں تھا۔ میری حیات نے بے بساط کے آخری لمحے اور میرے نطق ِ بے مایہ کے آخری لفظ و صوت و آہنگ کی پہلی اور آخری خواہش بھی تو ثناء رسول اعظم صلعم ہی تھیں۔ سوچا کہ میرا نطق اور قلم تو سیر تِ رسو ل صلعم کیلئے عاجز ہو سکتا ہے۔ مجھے تو اس کتاب کے بارے میں لکھنا تھا یہ تو بلاوا تھا اسی ہستی کامل کی طرف سے کہ شاید میری کاوش میری بخشش کا سبب بن سکے گی۔ میرے قلم کو …… میرے نطق کو …… میری حسیات کو ….. بھی پاکیزگی عطا ہو سکے گی۔ دامن ِ دل کشادہ ہو ا …… تصور میں اسم رسول صلعم کے بوسے سے …… پھر وہ کتاب مجھے برائے مطالعہ موصول ہوئی۔ اگلے ہی روز میری لاہور سے نیویارک کی پرواز تھی، کتاب کو بصد احترام ساتھ لیا….. مطالعہ کرتی، سفر کر تی رہی۔ کتاب کے سرورق کے پہلے ہی جملے نے دامن ِ دل تھام لیا۔ ”محمد صلعم ہمارے زمانوں کے پیغمبر“ یہ ایک نہایت خوبصورت ٹائٹل ہے۔ ہر پیغمبر علیہ اسلام ایک مخصوص قوم اور مخصوص عہد کیلئے مبعوث ہوئے۔ اللہ کے آخر ی پیغمبر خاتم النبین ساری دنیا کیلئے …… تمام اقوام اور ساری انسانیت کیلئے اور تمام ادوا ر کیلئے اور رہتی دنیا کیلئے تشریف لائے۔ یہ اعترافی ٹائٹل ایک غیر مسلم مذہبی سکالر جس کی نشوونما ہی چرچ میں ہوئی، اس نے اپنی کتاب کیلئے منتخب کیا۔ یہ بات جہاں میرا بحیثیت مسلم سر فخر سے بلند کرنے کیلئے کافی تھی، وہیں آج کے اس مذہبی افراتفری کے دور میں جب اسلامو فوبیا کے عفریت نے مسلم، غیر مسلم دونوں کی گردن دبوچ رکھی ہے …… ایک تازہ ہوا کا جھو نکا بھی لگا۔ ضروری
سمجھتی ہوں کہ ”خالد محمو د خان“ جو ا س کتاب کے ترجمہ کار ہیں اور جنہوں نے کمال عنایت سے مجھے اس بہشت زار کی سیر کیلئے مخاطب کیا۔ ان کیلئے ہدیہ تشکر پیش کروں کہ مجھ جیسے بے علم و عمل شخص پر ان کی نگاہ پڑی۔ چند ماہ پہلے ہی ان سے مقصود وفا کے توسط سے متعارف ہوئی۔ ان سے اور ان کی خوبصورت فیملی سے ایک مختصر …. مگر نہایت خوبصورت ملاقات ہوئی۔ آپ دل موہ لینے والی ہستی ہیں۔ اردو، انگلش، عربی، فارسی، ہر علاقے کی پنجابی، سرائیکی، ہندی شعر و نغمہ، ادب، تاریخ، فلسفہ اور نفسیات کے شعبوں کے ماہر پیراک سچ کہا تھا۔
بات پرواں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
یہی پہلی اور آج تک کی ملاقات تھی، اس کیمیا گر نے مجھ جیسے بے ہنر کو بھی لکھنے میں بھی لگا دیا۔ بہت ممنون ہوں ….. آپ پاکستان کے نامور مصنف، تاریخ نگار، ترجمہ نگار، قلمقار، نقاد، مقالہ نگار، کہانی نویس ہیں۔ بلا شبہ آنچہ ہمہ خوباں دارند تو تنہاداری۔ آپ کم و بیش پچیس سے زائد خوبصورت کتابو ں کے خالق ہیں۔ زیاد ہ تر تحقیقی کام کرتے ہیں ….. یہ بات قارئین کیلئے یقینا بہت دلچسپی کا باعث اور مفید ہو گی کہ خالد محمود خان کی تمام کتب طلباء او ر عوام الناس کے استفادہ کیلئے وکی پیڈیا، ویب سائٹ اور فیس بک پر ڈاؤن لوڈ کی سہولت کیساتھ موجو د ہیں۔ بقول ڈاکٹر انوار احمد: ”پیؤ کہ مفت لگا دی ہے خونِ دل کی کشید“۔ سیرت کی بہت سی کتب سے استفادہ کرنے کی توفیق ملی۔ سیرت کی انعام یافتہ کتب بھی زیرِ مطالعہ رہیں۔ یہ موضوع اور یہ شوق اتنا جاذب وسیع اور متنوع ہے کہ کسی مقام پر آپ رک نہیں سکتے۔ میں یہ کبھی نہیں کہوں گی کہ کیرن آر مسٹرونگ کی یہ کتاب سب سے افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی صلعم کی حیاتِ طیبہ پر تو ہمیشہ لکھا جاتا رہے گا، ہمیشہ پہلے سے بڑھ کر لکھا جائے گا۔ جس ہستی کا ذکر اللہ رب العزت نے ہمیشہ کیلئے اپنے نام کیساتھ بلند کر دیا ہو اس پر تو الفاظ حروف علم کی مہر لگ جاتی ہے۔ تاہم سیرت کی تمام کتب میں آسان ترین اور سادہ ترین ہے۔ بچے، بڑے، مسلم، غیر مسلم سب یکساں سمجھ سکتے ہیں۔ سب کی یادداشتوں میں جگہ بنا لینے والی کتاب ہے۔ نو مسلم نو آمود اذہان کیلئے بے حد آسان ہے۔ آج اس امر کی ضرورت ہے کہ سیرت ِ رسول اکرم پر غیر مسلم اور خصوصاً غیر مسلم مذہبی سکالرز اور تاریخ دانوں کی ایسی متوازن کتب نمایاں کی جائیں۔ خالد محمو د خان مبارک باد کے مستحق ہیں کہ آپ نے یہ کام کر دیا۔ آپ کی کاوش پر تبصرہ بعد میں پہلے کیرن آرمسٹرونگ کی کتاب کیرن کی کتاب ”محمد صلعم ہمارے زمانوں کے پیغمبر“ یہ ایک فکر انگیز بصیرت افروز اور دعوت ِ فکر دیتی ہوئی سوانح
حیات ہے۔ اس کے مخاطب بلا تفریق رنگ و نسل و مذہب عوام الناس ہیں۔ کتاب ساتویں صدی عیسوی میں میں عرب کے جغرافیائی، معاشرتی، سیاسی دور پر سیر حاصل بحث کرتی ہے۔ کسی طرح اس دور کے انسانوں اور انسانی اخلاقی اقدار پر عصبیت کا یہی بھوت تھا جس نے با لاآخر سانحہ کربلا کو جنم دیا۔ آج تک مسلم اُمہ اس عفریت کے عذاب سے نجات حاصل نہیں کر سکی۔ یہ کتاب اس دور کے عرب کے جغرافیائی حالات اور معاشرتی عدم ِ توازن استحصال اور عدمِ مساوات اور ان سے پیدا ہونیوالی برائیوں کے شکار عرب معاشرے کی بے لاگ تاریخ بھی ہے۔ اسی دور ِ اسو د میں مؤ رخہ کیرن آر مسٹرانگ نے آپ کی ابتدائی زندگی کے بارے میں لکھا ہے۔ آپ صلعم اپنے والدین اور بڑوں سے محروم ہوئے …. ایسے حالات سے متا ثر ہو ئے کہ ہمیشہ کیلئے یتیموں کے نگہبان ہوئے ….. کیسے سار ا مکہ انہیں ان حالات میں بھی صادق اور امین کہہ کر بلا تا تھا۔ لوگ کمسنی سے ہی آپ پر اعتماد اور بھروسہ کرتے تھے۔ وہ مکہ اور مدینہ میں جاری سیاسی اور مذہبی چپقلش کو بھی زیرِ بحث لائی ہے۔ اس نے نہایت مہارت سے معاشرتی روادار ی اور معاشرتی انصاف کے قرآنی قواعد و قوانین کے پیغام کو عوام تک پہنچایا ہے۔ حضور صلعم کا ان کی ازواجِ مطہرات کیساتھ حسنِ سلوک اور برابری کا برتاؤ، خواتین کے حقوق، آپ صلعم کا ا پنے اصحاب کیساتھ حسنِ سلوک رسول اللہ کی شخصیت کا ایک نہایت متوازن خاکہ پیش کرتی ہے۔ وہ ایک طرف آنحضور کی قائدا نہ صلاحیتوں کی معترف نظر آتی ہے۔ دوسری طرف ان کے امن کے داعی مبلغ اور امن کے پیامبر ہونے کا بھی کھل کر دفاع کرتی ہے۔ ورقہ بن نوفل کا نام بس ایک گواہی ہے کہ یہ واقعہ صداقت پر مبنی ہے، محمد صلعم کے پاس بھی وہی فرشتہ آیا ہے جو پہلے انبیاء کے پاس آتا رہا ہے۔ یہ خدا کا پیغام لایا ہے قیامت تک کیلئے تاریخ میں محفوظ کر دیا۔ ہم احترام سے بحیرہ راہب کا نام بس ایک گواہی کی بنیاد پر لیتے ہیں۔ اس نے شام کے سفر رسول اللہ کے دورا ن آپ ؐ کو پہچان لیا۔ آج جب اس وقت ہمیں انہیں اغیار کی ایسی ہی بے لوث گواہیاں ان کے اپنے دریدہ دہنوں کی زباں بندی کیلئے ملیں تو ہمیں ان سے اجتناب نہیں برتنا چاہئے۔ کیرن آرمسٹرونگ کی کتاب کو اس کے مثبت پہلوؤں کیوجہ سے بہت پذیرائی ملی، وہیں کچھ لوگوں نے اس کے کچھ حصوں پر تنقید بھی کی ہے۔ واضح رہے کہ یہ تنقید مسلم اور غیر مسلم دونوں نے اپنے اپنے نکتہ ِ نظر سے کی ہے۔ کہ جب ایک مکمل مذہبی ماحول میں پرورش پانے والی مذہبی رجحانات رکھنے والی سکالر خاتون اسلام کا د فاع کرے گی …… تو مجرم ہی تو ٹھہرے گی۔ مسلم ناقدین نے بھی اس کتاب کے کچھ حصوں پر شدید اعتراضات کئے ہیں۔ جبکہ کچھ نامور مسلم سکالرز نے کیرن کے کام کو سر اہا بھی ہے۔ جن میں سید حسین انصر مسلم حلقوں میں نہایت معتبر جانا پہچانا نام ہے…… انہوں نے کیرن آرمسٹرونگ کی کتاب
کے بے حد متوازن ہونے کو سراہا ہے۔ اسی طرح طارق رمضان ایک سو ئس مسلم مفکر نے کیرن کے کام کی بہت تعریف کی ہے۔ خالد ابو الفادی اور دیگر مسلم سکالرز نے بھی کیرن کے کام کو مغر بی اور اسلامی نکتہ ہائے نظر میں موجود خلیج کو مثبت انداز میں پر ُ کرنے کی کاوش قرار دیا ہے۔ الاظہر یونیورسٹی نے اس کتاب کو سراہا ہے۔ بوسینا اور مصر کے مفتیان اعظم نے کیرن کے کام کو پہچانا ہے۔ الاظہر یونیورسٹی قاہرہ اسلامی دنیا کا سب سے معتبر نام ہے، انہوں نے اس کتاب کو عالمی جامعہ نے اسلامیہ سٹڈی میں بڑ ا ا ہم قرار دیا ہے۔ جبکہ بہت سے علماء اور تنقید نگاروں نے کیرن آرمسٹرونگ کی لکھی ہوئی اس مقدس سوانح حیات پر تنقید بھی کی ہے۔ ان ناقدین کی تنقید کا محور کیرن کا اندازِ تحریر ہے۔ مجھے اس پہ حیرت ہوئی ….. حقیقت یہ ہے کہ ہر ز بان کے انداز میں فرق ہوتا ہے کیونکہ ہر زبان اپنے قبیلے، قوم کی تہذیب و ثقافت، تاریخ، سیاست سے متاثر ہونے کی بناء پر بنتی پھلتی پھولتی اور ارتقائی مدارج طے کرتی ہے۔ وہ زبان دراصل اسی قوم کے افراد کے ذریعے اور بنیادی طور پر اسی قوم کے فہم و ادراک کیلئے مخصوص ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر زبان کا اپنا کلچر اور تاثر ہوتا، دوسری زبانوں میں مشکل، نا قابلِ فہم بلکہ کبھی کبھی ناپسندیدہ بھی ہو سکتا ہے۔ قاری کو یہ چیز مطالعہ کرتے وقت ذہن نشین ہونی چاہئے کہ کتاب کا متن جس زبان میں ہے ….. اسے اسی کے لسانیاتی پس منظر میں سمجھ سکے وہ جو آتشی نے کہا تھا کہ
پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرح آرزو کرتے
زبانِ غیر کو غیر سمجھ کے پڑھا جائے تو آ پ اس تحریر کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ کیرن کی تحریری اور تحقیقی زبان انگریزی ہے، یہ قدیم بھی ہے اور جدید ترین ….. ترقی یافتہ بھی۔ انگریزوں نے ساری دنیا میں نو آبادیاتی کالونیاں قائم کیں۔ ہر جگہ اپنی زبان اور تہذیب کے نقو ش ثبت کئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ فاتح حکمران خود اتنے اثر پذیر نہیں ہوتے، جتنا وہ اپنی زیر دست مفتوح قو م کو متاثر کرتے ہیں۔ لسانیات کے حوا لہ سے اسی نو آبدیاتی دور میں فاتح ہونے کے سبب انگریزی زبان میں بے پناہ خود اعتمادی آئی۔ اسی خود اعتمادی کی بناء پر انگریزی میں مخاطب یا مذکورہ ہستی اور اشخاص کیلئے کوئی اعزازی اندازِ تخاطب یا القاباتی طرز تعارف honorific نظر نہیں ملتے۔ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کیلئے بھی استعمال نہیں کرتے ہیں۔ خاص و عام کسی انسان کیلئے بھی نہیں۔ اس کے مقابلے میں ہندوستان کے عوا م صاحب، جناب، حضور اور بیشمار دیگر اعزازی لغت کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ ہمارے لوگوں میں فاتحین کے اثرات کی وجہ سے ذات پات کے نظام اور مذہبی درجہ بندی کے سبب ہے۔ درباری رجحان زیادہ ہوا کہ بادشاہوں اور رؤوسا کیلئے قصیدہ گوئی
ہوتی تھی۔ اسی وجہ سے ہمارے ہاں انگریزی انداز تخاطب کو بد اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔ یہ تو ایک اندازِ بیان ہے ….. بد ا خلاقی نہیں ہے۔ اس کے باوجود کیرن آرمسٹرونگ کی لغت میں مکمل انگریزی لسانیت شدت اور انگریزی اعتماد کے باوجود حضرت محمد خاتم النبین پر تحقیق اور تحریر کے دوران زبان کا بہت ہی محتاط انداز اختیار کیا گیا ہے۔ انگریزی اسلوب میں ہمارے اسلوب کے برعکس مکمل ثبوت اور حقائق کیساتھ سخت ترین حقیقت کو بھی اس کی درشتی کیساتھ بعینہ بیان کرنا اعلیٰ علمی، اخلاقی اقدار اور ادیب کی خوبی کیساتھ ساتھ ادب و تحریر کا حسن سمجھا جاتا ہے۔ تہذیب، ثقافت، زبان، تاریخ اور کسی قوم کی لسانی حدود قیود کے دائرہ میں رہ کر جب کیرن آرمسٹرونگ کی لکھی اس سوانح رسول اعظم کا مطا لعہ کیا جاتا ہے تو یہ کتاب آپ کے بصیرتی اور بصارتی دریچے ہی وا نہیں کرتی، بلکہ تقلید حیاتِ طیبہ کی راہوں کو بھی مزید روشن کرتی ہے۔ کیرن نے صرف عقیدت کا ہی اظہار نہیں کیا ہے بلکہ آنحضور صلعم کی حیاتِ طیبہ پر اور اسلام ا ور تعلیمات قرآن پر اٹھائے جانیوالے اعتراضات کا بھی سیر حا صل جواب دیا ہے۔ اس نے اسلامی ماخذ سے استفادہ کرتے ہوئے اسلامی کتب علماء کی مستند آراء سے ان الزامات کا بھرپور جواب دیا ہے۔ مثلاً معاشی اور سماجی درجہ بندی۔
اپنے ابتدائیہ میں وہ لکھتی ہیں، ”قرآن مجید زندگی کے بیشمار پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ جارحیت کی مذمت کرتا ہے …… تمام مذہبی سچائی کو ایک خدا کی طرف سے اخد کئے جانے کے طور پر دیکھتا ہے۔ ہمارے ہاں مغربی ثقافت میں اسلام سے خوف کی ایک طویل تار یخ ہے۔ صلیبی جنگوں کے اثرات اور زمانے سے بے بارہویں صدی میں یورپ میں عیسائی راہبوں نے اصرار کیا کہ اسلام تلوار کا ایک پرُ تشدد مذہب ہے اور یہ کہ حضرت محمد ایک جنگجو تھے۔ انہوں نے ہتھیار وں کی طاقت سے اپنے مذہب کو ا پنے لئے ایک نا پسندیدہ دنیا پر مسلط کیا، انہوں نے آپؐ کو ایک جنگجو کہا۔ نبی کریم صلعم کی زندگی کا یہ تصور اور تصویر مغرب سے حاصل کردہ نظریات میں سے ایک بن گئی۔ اسی لئے مغرب کے لوگوں کو آ نحضور ؐ کو ز یاد ہ معروضی روشنی میں دیکھنا مشکل لگتا ہے۔ ستمبر 2001ء میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی کے بعد سے امریکہ میں عیسائی دائیں بازو کے ارکان اور مغربی میڈیا کے کچھ شعبوں نے اسی سوچ کو جاری رکھا ہے۔ انہوں نے نبی ؐ کی شان میں نا قابل ِ بیان گستاخیاں کیں۔ دشمنی کی روایت میں یہی باتیں ثابت کرتے ہوئے وہ لوگ حضرت محمدؐ کی شان میں گستا خیوں کے ارتکاب میں بہت حد تک آگے جا چکے ہیں“۔ اس آراء کو وہ آزا دی آراء بھی قرار دیتے ہیں، جو کہ معاشی و سماجی طور پر غلط سو چ ہے۔ کسی بھی مذہبی پیشوا کے بارے میں اس طرح کی آراء سے اجتناب کرنا چاہئے۔ وہ لکھتی ہیں کہ ”ہم اب اس قسم کے تصب میں ملوث ہونے کے
متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ انتہا پسندوں کیلئے ایک تحفہ ہے“۔ حضرت محمد صلعم ایک امن پرست انسان اور پیغمبر ہیں۔ ہمیں آپ ؐ کی بیشمار کامیابیوں کی تعریف کرنے کیلئے ان کی زندگی کو ان کے کردار، سیرت اور بات چیت کی روشنی میں دیکھنا چاہئے، غلط تعصب پیدا کرنے سے رواداری، آزاد ی اور ہمدردی کو نقصان پہنچتا ہے اور یہ مغربی ثقافت کی خصوصیت ہے“۔ اب پھر مغرب کے اعتراضات اسلام کے نظریہ جہاد پر ہوں یا عالمی امن کے بارے میں رسول اعظم ؐ کی ذاتی زندگی کے بارے میں ہوں یا ازواجِ مطہرات کی تعداد او ر ان حسنِ سلوک کے بارے میں حقوق ِ نسواں کی بات ہو یا مردوں کے حقوق و فرائض کا معاملہ، کیرن آرمسٹرونگ نے اسلام اور مسلمانوں پر اٹھائے جانیوالے ہر سوال کا جواب اسلامی ماخذ اور مسلم دار الافتاء کے حوالوں سے دیا ہے۔ میر ی نظر میں جو کا م ہمارے مفکرین، مجتہدین اور علماء کے کرنے کا تھا، کیرن نے کر دیا ہے۔ واقعہ اُ فک کے بارے میں اس نے دار افتاء کی اسناد اور احادیث کے حوا لہ جات اور بڑی تفصیل کیساتھ واقعہ بیان کیا ہے۔ بہت سے دریدہ دہن آنحضور صلعم کی شادیوں کے بارے میں اعتراض اٹھاتے ہیں۔ اسلام پر آزادی نسواں کے بارے میں مغرب میں بہت سے سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ کیرن نے سب اعتراضات کو ا سلامی حوالوں سے اور اپنی ذاتی رائے کیساتھ مسترد کیا ہے۔ نبی کریم رسول معظم کے حوالے سے ان کا پو را دفاع کیا ہے۔ مثلاً ازواجِ مطہرات کیساتھ آنحضور ؐ کی محبت کے سلوک کو وہ خاص طور پر بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں، ”حضرت محمد ؐ رحم دل انسان اور شو ہر تھے، انہوں نے اصرار کیا کہ ان کی بیویاں اپنی چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں میں کفایت شعاری سے زندگی گزاریں۔ لیکن آپ ؐ ہمیشہ گھر یلو کاموں میں ان کی مدد کرتے تھے، ان کی ذاتی ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔ اپنے کپڑوں کی مرمت اور رفو گری کرتے تھے۔ اپنے جوتے خود باندھتے تھے۔ خاندا نی بکریوں کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ خاص طور پر حضرت عائشہ سلام اللہ علہیا سے بے تکلفی میں وہ ان کیساتھ دوڑ میں مقابلہ کرتے تھے“۔ کیرن نے اسلامی ماخذ سے استفادہ کرتے ہوئے مغرب زدہ مورخین کے تمام اعتراضات کا بہتر ین جواب دیا ہے۔ اس کی نظر میں حضرت محمد صلعم ایک شاندار، بے مثال انسان، بہترین دوست، ساتھی، سربراہ، بہترین منتظم، اعلیٰ پائے کے پالیسی ساز، قابل ِ تقلید، نہایت کامیاب سپہ سالار اور اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے تھے۔ وہ رسول برحق ہیں جو تما م زمانوں کیلئے مبعوث ہوئے، جن کی ضرورت آج بھی پندرہ سو سال بعد پہلے سے زیاد ہ ہے۔ آج کے منافرت زدہ معاشروں اور افراتفری کے شکار لالچ زدہ اقوام کی رہنمائی کیلئے نبی کریم ؐ کی پیروی کی ضرورت ہے۔ ”وہی ہمارے زمانوں کے پیغمبر ہیں“۔ کیرن کی کتاب ”محمد ہمار ے زمانوں کے پیغمبر“ کے ترجمے کی طرف ضروری تقاضا ہے، ترجمہ کے اصول و ضوابط کی بنیادی خوبی سچائی اور وضاحت ہے کہ اصل
متن اور مفہوم کو صحیح طور دوسری زبان میں منتقل کرنا۔ ترجمہ ایسا واضح ہو کہ قاری اصل متن کو آ سانی کیساتھ سمجھ سکے۔ دورانِ ترجمہ انداز اور لہجہ برقرار رکھنا کہ وہ غیر ملکی یا شر ح آرزو بہ زبان غیر نہ لگے۔ ترجمہ میں استعمال ہونیوالے الفاظ اور انداز کو برقرار رکھنا اور ادیب کی ثقافت اور روایات کا احترام کرنا کہ وہ ترجمہ ادیب کے اپنے مقامی لوگوں کیلئے قابلِ قبو ل ہو سکے۔ ترجمہ نگار خالد محمود خان مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ترجمہ نگاری کے مروجہ اصولوں کو ہی پیشِ نظر نہیں رکھا بلکہ اس ترجمہ کے ذریعے ایک بہت بڑے فتنے کے تدارک کی کوشش بھی کی ہے۔ یہ اسلامو فوبیا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ خالد محمود خان کے ترجمے سے مترشح ہوتا ہے کہ انہوں نے انگریز تحقیق کار کے لسان و لہجہ کو برقرار رکھتے ہوئے نبی کریم ؐ کی شخصیت اور واقعات کو اردو مز اج، طرزِ نگارش اور اسلوب بیان میں پیش کیا ہے۔ کہیں ایسا بھی نہیں لگتا کہ کیرن آرمسٹرونگ جو کہنا چاہتی تھیں …… وہ نہیں کہا گیا۔ اس کو بدل دیا گیا ہے، یہی ایک اچھے ترجمہ نگا ر کا و صف اولین ہے۔ ترجمہ نگار متن کی اصل معنویت کو ترجہ کی ہدفی زبان میں بڑی دیانت داری سے منتقل کر تا ہے ….. ضم کرتا ہے۔ خالد محمود خان نے کمال مہارت سے یہ فریضہ نبھایا ہے۔ شاید اس لئے بھی کہ ترجمہ نگاری کو ان سے بہتر کون جانے گا کہ وہ خود ترجمہ نگاری کے اصول و ضوابط اس شاہرا ہ کے تمام پیچ و خم سے آگاہ بھی ہیں۔ ان کی ترجمہ نگاری کی کتب سے بیشمار طلباء مستفید ہو رہے ہیں۔ انہوں نے تراجم کے علاوہ علم و ترجمہ کا مکمل نصاب پیش کیا ہے جس میں فن نگاری…… نظریات …… تاریخ ترجمہ ….. اطلاقی جہا ت …. لفظوں کی ثقافت کا نظر یہ …… لغات ترجمہ …… اور لغات لسانیات پیش کی ہیں۔ ڈاکٹر سمیرا اکبر مبارکباد کی مستحق ہیں کہ اس نوجوان پروفیسر صاحبہ نے اس نازک اور اَ دَق موضوع کی کتاب کا دیباچہ تحقیق کیا۔ خالد محمود خان کا مقالہ ”صوت ہادی نبی کریمؐ ….. شخصیت نگا ری“ کا ا یسا تصور پیش کرتا ہے کہ اس موضوع کا مواد پر کسی کے مطالعہ میں آئے۔ نبی کریمؐ کی شخصیت کا یہ پہلو نیا نہیں بھی ہے تو نیا ہی لگتا ہے۔ میں اپنے مطالعے کا اختتام بھی کیرن آرمسٹرونگ کے الفاظ سے ہی کروں گی۔’ ’ایک مثالی شخصیت کے طور پر حضرت محمدؐ کے پاس نہ صرف مسلمانوں بلکہ مغربی لوگو ں کیلئے بھی اہم سبق ہے۔ آپ صلعم کی شخصیت مختلف پہلوؤں کا مجموعہ تھی۔ آپ صلعم کی زندگی ایک جہاد تھی۔ اس لفظ کا مطلب ’’مقدس جنگ“ نہیں۔ اس کا مطلب جدوجہد ہے، حضرت محمد صلعم نے لفظی طور پر جنگ زدہ عرب میں امن لانے کی کوشش میں خون پسینہ ایک کیا اس لئے ہمیں آج بھی ایسے لوگو ں کی ضرورت ہے جو ایسا کرنے کیلئے تیار ہوں۔ آپ صلعم کی زندگی لالچ، نا انصافی اور تکبر کے خلاف ایک انتھک اور نا مختتم مہم تھی“۔ اسی لئے اس نے اپنی کتاب کو ”محمد صلعم ہمارے زمانو ں کے پیغمبر“ جیسا آفاقی،
لافانی خوبصورت نام دیا۔ میں دل کی اتھاہ گہراہیوں سے خالد محمو د خان کی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری کم علمی، بے عملی اور بے بصیرتی کو اس خوبصورت ترین موضوع پر پسند کیا، میرے بے مایہ حروف کو اپنی شاندار تحقیق، تجزیہ و ترجمہ کا حصہ بنایا۔