Warning: Undefined variable $forward in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 78
Warning: Undefined variable $remote in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 84
ٹانگے والا خیر مانگدا …… تانگہ کی تاریخ ، عروج و زوال
تحریر ….. پروفیسر عابدہ فیاض ….. ماہر تعلیم، سابق، پرنسپل گورنمنٹ مدینہ ٹاؤ ن گرلز یونیورسٹی فیصل آباد
قدیم سنگی دور کا خاتمہ دس ہزار سال پہلے شروع ہوتا ہے …. اس دور کا انسان …… جانور مثلاً بھیڑ ، بکریاں اور گھوڑے وغیرہ پالتا تھا ….. پہیہ بھی اسی دور میں معرضِ وجود میں آ چکا تھا۔ تب پہلی بار کسی خاص مقصد کیلئے استعمال ہوا او ر دو پہیو ں سے چھکڑا بنانے کا کام لیا گیا …… اس چھکڑے کو گھوڑے اور بیل کھینچنے تھے۔ جو سواری اور بار بردار ی کیلئے استعمال کیا گیا ….. گھوڑے گاڑی کو تانگہ کا نام دیا گیا۔ اور بیل گاڑی کو کرینچی پوٹھواری اور گڈا پنجابی میں کہتے ہیں …. جو اشوریوں کے عہدِ حکمرانی میں ایجاد ہوا۔
پشاور کے بنے تانگے برِ صغیر پاک و ہند میں مشہور تھے …… پنڈی اور لاہور کے علاوہ پاکستان کے تمام شہروں میں ذرائع آمدورفت تھے۔
”زندہ دلوں کے شہر میں تانگہ کا دو ر ….. عروج و زوال“
زیادہ عرصہ نہیں گزر ا ….. جب زندہ دلوں کے شہر میں تانگے چلا کرتے تھے، مگر وقت کا تیز رفتار پہیہ اتنی رفتار سے چلا کہ تانگے کے پہئے کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ ایک دور تھا جب کوچوانوں پر کہانیاں لکھی جاتی تھیں۔ احمد ندیم قاسمی جیسے معروف لکھاری او ر شاعر نے بھی اس پر تحریر لکھی ….. شاعر اپنی شاعری میں اور گیت نگار اپنے گانوں میں تانگے کا ذکر ضرور کرتے۔
”ٹانگہ لاہور لہو ر دا ہوئے تے …. بھانویں جھنگ دا …… ٹانگے والا خیر مانگدا “
جیسے گا نے آج بھی تانگے سے جڑے ماضی کی یاد دلاتے ہیں ….. لاہور کی رونقیں کم تو نہیں ہوئیں ….. مگر لاہور کے ماضی کے صفحے پر لکھی تحریر جیسے کسی نے کھرچ کر مٹا ڈ الی۔ لاہور کی شاہراہوں پر چلنے والے تانگوں کی جگہ میٹرو نے لے لی ہے۔ نئی نسل کو ماضی کیساتھ منسلک کرنے کیلئے البتہ وال سٹی لاہور نے ایک ثقافتی تنظیم کیساتھ ملکر لاہور کی پہلی اور ماضی کی عوامی سواری کا آغاز کیا ہے۔ وال سٹی کے مطابق یہ تانگے ہفتے میں چار دن مقرر کردہ مختلف رستوں پر چل رہے ہیں۔ جن میں ایک سرکلر روڈ، دوسرا دہلی گیٹ شاہی گزر گاہ، اور تیسرا بھاٹی گیٹ کی ٹریل ہے۔ یہ منصوبہ لاہور کی شاموں کو مزید خوبصورت بنانے اور نئی نسل کو ماضی
کیساتھ جوڑنے میں شاندار کردا ر ادا کر رہی ہے ….. رکشوں کی نسبت تانگوں کی سجاوٹ کم ہے۔ لیکن عوامی حلقوں نے سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے تانگہ ہی کو پسند کیا ہے۔ قلمقار ناصف اعوان کے بقول تا نگہ لاہور کی پرانی ثقافت کی نشانی تھی ….. جو ما ضی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گم ہو گئی۔ ان کے بقول لاہور میں بھاٹی گیٹ اور ریلوے سٹیشن تانگوں کے بڑے اڈے تھے ….. ایک
باریک چھڑی جس کے ایک سرے پر ر سیاں باندھی ہوتی تھیں ….. چھانٹا کہا جاتا تھا۔ او ر اسی چھانٹے سے گھوڑے کو ہانکنے اور ہارن کا کام لیا جاتا تھا۔ تانگے کا پہیہ جو لکڑی کے ڈنڈوں سے بنا ہوتا، کوچوان ان ڈنڈو ں سے چھانٹا ٹچ کرتا اور ٹک ٹک ٹک کی آواز سے تانگے کے آگے جانیوالا خبردا ر ہو جاتا ….. تانگوں پر رنگ روغن ہوتا، خوش رنگ بیل بوٹے پینٹ ہوتے …. گدیاں درست کی جاتیں، پیتل کا ساز خوب مل مل کر برش سے چمکایا جاتا۔ بتیوں کے شیشے چمکائے جاتے …. بھلا زمانہ تھا۔ ایک دور تھا جب تا نگہ شاہی سواری ہوا کرتی تھی …. ماضی میں جھانکیں تو مغلیہ دور میں شہنشاہوں اور شہزادیوں کو لیکر جب بڑی بڑی بھگیاں محل سے لیکر نکلتیں تو رستو ں پر محو ِ انتظار عوام انہیں حسرت سے دیکھتے۔ تب ادب و ثقافت میں بھی تانگے کا راج تھا۔ لیکن آلودگی کی حدیں پھلانگتے ذرائع آمد ورفت نے بھی تانگے کے ماضی کو گہنا دیا۔ جہاں تانگے سٹینڈ تھے …. بند ہو چکے۔ تانگے بانوں کا روز گار شدید متاثر ہوا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آنیوالی نسلیں
تانگے کا ذ کر صرف کتابوں میں پائیں گی ماضی میں بہت سے لوگ جہاں تانگے کو سواری کا ذریعہ سمجھتے تھے ….. وہیں کچھ منچلے موسم سے لطف اندوز ہونے کیلئے بھی شاہی سواری کا ا ستعمال کرتے تھے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، پٹرولیم مصنوعات، گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے جہاں ہر شخص پریشان نظر آتا ہے وہاں اس کا ا ثر لوگوں کے رہن سہن اور رسم و رواج پر بھی نمایاں طور پر پڑا ہے اس دور کو آج بھی عوام الناس یاد کرتے ہیں ….. جب تانگے کی جگہ رکشے اور گاڑیوں نے لے لی۔ مہنگائی بڑھی تو سرحد کے بہت سے شہروں میں لوگ پرانی سواری کی طرف لوٹنے لگے ….. کوچوان خوش ہیں کہ لوگ ان کی طرف لوٹ رہے ہیں۔