Warning: Undefined variable $forward in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 78
Warning: Undefined variable $remote in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 84
فرو غ تعلیم میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا کردار
بہت پہلے نجی سکولوں کے بارے میں عوام کوئی مثبت رائے نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ ہر سطح پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ تاہم وقت اور ضرورت کیساتھ ساتھ نجی سکولوں نے جس طرح سے تعلیمی سہولتوں کے پیدا شدہ فقدان کو پور ا کیا ہے اس سے ان کی افادیت اور اہمیت کو عوامی او ر حکومتی حلقوں میں تسلیم کیا جا رہا ہے۔ اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا ہے کہ حکومتی سطح پر تعلیمی سہولتوں کا فقدان ہے۔ جسے پرائیویٹ سکولوں نے کسی حد تک پورا کر رکھا ہے۔ مختلف فورموں پر ان تعلیمی اداروں کی کارکردگی اور آمدنی کے حوالے سے تنقید ہوتی رہتی ہے۔ حتیٰ کہ انہیں لوٹ مار میں مصروف مافیا بھی قرار دیا جاتا ہے۔ معاملہ کا یہ پہلو در ست نہیں ہے بلکہ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو حالات مختلف نظر آتے ہیں۔ کوئی بھی معا ملہ ہو یا مسئلہ ہو اس کا حقیقت پسندانہ طریقے سے جائزہ لینا چاہئے اور معاملے کو دونوں پہلوؤں کو سامنے رکھنا چاہئے۔
اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں تعلیمی ادارے بھاری فیسیں لے رہے ہیں۔ لیکن یہ بات تمام تعلیمی اداروں پر صادق نہیں آتی۔ ملک میں چند ایک گنتی کے تعلیمی ادارے ہوں گے جو اس تنقید کی زد میں آتے ہیں۔ جبکہ 90 فیصد تعلیمی ادارے ایسے ہیں جو اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود تعلیمی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔ ایسے سکولوں کے ”مالکان کمائی“ کرنے کے زمرے میں نہیں آتے بلکہ تقریباً اخراجات پورے کرنے کی حد تک ہی محدو د ہیں۔ اسے ہماری بد قسمتی کہہ لیجئے یا حکومتی عدم توجہی…… کہ میٹرک تک سکولوں کی تعداد بڑھنے کی بجائے رک سی گئی ہے۔ اور آبادی میں تناسب کے حساب سے تو پرائمری سطح تک نئے سکولوں کا اجراء نہ ہونے کے برابر ہے۔ گلی محلوں میں قائم چھوٹے سکول اس حوالے سے تعریف کے قابل ہیں کہ فلاحی ادارے کے طور پر نہ صرف بہت کم فیس میں تعلیمی بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ بلکہ سرکاری شعبہ میں سکولوں کی کمی کو بھی محسوس نہیں ہونے دے رہے ہیں۔
سرکاری طور پر پرائمری سکولوں کے معیار تعلیم کے بارے میں بھی یہ رائے اب حقیقت بن چکی ہے۔ کہ لوگ یہاں اپنے بچوں کو داخل کرانے میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔ پہلے پہل تو یہ سوچ پرائمری سطح تک ہی محدود تھی۔ مگر اب تو ہائر سکینڈری…. کالج…. اور یونیورسٹیاں بھی اس کی زد میں ہیں۔ خیر معیار ایک الگ موضوع ہے یہاں صرف یہ بتانا مقصود کہ تمام تعلیمی ادارے نہ تو لوٹ مار کر رہے ہیں اور نہ ہی غیر معیاری تعلیم دے رہے ہیں۔ اگر ہم کسی ایک ضلع میں تعلیمی سہولتوں کی صورتحال کا جائزہ لیں تو یہ بات
حقیقت کی طرح عیاں ہے کہ سرکاری اداروں میں بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہونے کے باوجود ایسے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بچوں کی تعداد کم کیوں نہیں ہوئی۔ یقینا یہ سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم مفت ہے۔ کتابیں بھی مفت دی جا رہی ہیں۔ غریب والدین اپنے بچے وہاں بھیج دیتے ہیں لیکن گلی، محلے کے سکولوں میں فیس پانچ سو روپے سے لیکر ایک ہزار روپے تک لی جا رہی ہے۔ اور اگر ان سکولوں کے اخراجات کا اندازہ لگائیں تو حیرت ہوتی ہے، کہ یہ کس طرح کام چلا رہے ہیں۔ سرکار کی طرف سے انہیں برائے نام ہی سہولتیں ہیں۔ فیس بھی معمولی ہے لیکن یہ بات حیران کن ہے کہ یہ سکول سرکاری سکولوں سے بہتر نتائج کیسے دے رہے ہیں۔ ان کی کارکردگی اور تعلیمی معیار کو اب تو حکومتی سطح پر بھی سراہا جانے لگا ہے۔
تعلیمی ضروریات میں اضافہ کیساتھ ساتھ چھوٹے پرائیویٹ سکولوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ آج اگر نظر دوڑائیں تو شاید ہی کوئی محلہ یا کالونی ایسی ہو جہاں پر اوسط پانچ سے کم سکول ہوں بلکہ دیہی علاقوں میں بھی تعلیمی بوجھ کا بیڑہ اب پرائیویٹ سکولوں نے اپنے سر لے لیا ہے۔ اور دیہاتوں میں بھی ایسے سکولوں کی تعدا د روز بروز بڑھ رہی ہے۔ اس وقت پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں ہزاروں تو کیا لا کھوں کی تعداد میں بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ گورنمنٹ کے تعلیمی اداروں میں طلباء کی حاضری 70 فیصد سے زیادہ نہیں ہو پاتی۔ جبکہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی حاضری 90 فیصد تک ہے۔ اسی طرح اساتذہ کی حاضری میں بھی یہی فرق ہے۔ اس طرح کے تقابلی توازن کا مقصد اس جانب توجہ مرکوز کرانا مقصو د ہے کہ اگر حکومتی سطح پر ابتدائی طور پر تعلیمی معیار اور سہولتیں ضرورت کے مطابق نہیں ہیں تو کم از کم اپنی مدد آپ کے تحت کام کرنے والے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی تو ہر سطح پر حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہئے۔ بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام چھوٹے بڑے تعلیمی اداروں کو حکومتی سطح پر مراعات اور سہولتیں دی جائیں
تا کہ یہ ادارے اپنے تعلیمی معیار کو مزید بہتر بنا سکیں۔ موجودہ صورتحال میں بھی تمام تر مشکلات کے باوجود پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا تعلیمی معیار کہیں بہتر ہے۔ گذشتہ کئی سالوں میں سب سے زیادہ تعلیمی وظائف پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے طلباء و طالبات نے حاصل کئے ہیں۔ جو کہ ریکارڈ پر موجود د ہیں۔ اس میں مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ اب سرکاری طور پر پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی سرپرستی کی جائے۔ کچھ ٹیکسز ختم کئے جائیں۔ اگر حکومت ایسا کرتی ہے تو اس میں کوئی ابہام پیدا کرنے کی بجائے حقیقت کے قریب تر جا کر سوچنا چاہئے۔ کہ ایسے سکولوں کے اخراجات کے بوجھ کم کرنے سے حکومت کو بھی بہت زیادہ آسانی پیدا ہو گی۔ اس وقت کم از کم ایسے سکولوں کو تو بالکل ٹیکس فری قرار دے دینا چاہئے…. جن کی ماہانہ فیس پانچ سو روپے یا اس سے بھی کم ہے۔ اور ایسے اداروں کو رفاعی اداروں کے طور پر
تسلیم کرنا چاہے۔ اس وقت ایسے تعلیمی ادارو ں کی طرف سے مختلف اوقات میں جو مطالبات سامنے آتے رہتے ہیں۔ ان میں مختلف قسم کے ٹیکسز… جن میں انکم ٹیکس، کمرشل پراپرٹی ٹیکس، سوشل سیکورٹی، اولڈ ایج بینفٹ، کمرشل سیوریج، اور واٹر سپلائی، نقشہ فیس، اور دیگر ٹیکسز او ر فیسیں شامل ہیں۔ ان تمام فیسوں اور ٹیکسوں میں چھوٹ دینی چاہئے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ اگر ہم اپنے ابتدائی ایجوکیشن سٹرکچر کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو فی الوقت یہی تجویز زیادہ بہتر اور قابل عمل ہے…. کہ حکومت تعلیمی سہولتوں کے فقدان پر قابو پانے اور تعلیمی ماحول کو بہتر بنانے کیلئے تمام چھوٹے درجے کے پرائیویٹ سکولوں کی اس حد تک سہولتیں ضرور دے جس سے ان تعلیمی اداروں کے مالکان پر نہ صرف بوجھ کم ہو….. بلکہ ان کی پریشانیوں میں بھی کمی ہو۔ اس صورت میں یہ امر یقینی ہے کہ ان تعلیمی ادارو ں کی طرف سے ملنے والے تعلیمی نتائج زیادہ قابل رشک ہوں گے…. اور ہمار ا ابتدائی تعلیمی ڈھانچہ بھی مضبوط بنیادوں پر استوار ہو سکے گا۔