Warning: Undefined variable $forward in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 78
Warning: Undefined variable $remote in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 84
نرسنگ کا تصور … اسلامی روح کے منافی نہیں
نرسنگ بلاشبہ ایک عظیم شعبہ ہے …. نرس جنگ اور امن دونوں میں لوگوں کی خدمت اور تیمارداری کے فرائض انجام دیتی ہے۔ دکھی انسانیت کی خدمت ہی اس کا مقصد ہے، نرسنگ کی ضرورت تب سے ہی ہے…. جب سے درد۔ نرسنگ ایک قدیم پیشہ ہے جس کا ذکر ہندؤں کی مقدس کتاب اتھروید میں بھی موجود ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ انسانی معاشرے کے ہر دور میں یہ پیشہ کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے لیکن اس میں زیادہ نکھار برطانیہ کی فلورنس ٹنگیل کی کوششوں اور مخلصا نہ جذبے سے پید ا ہو ا …. جسے تاریخ ”The lady of the lamp“ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ فلورنس جنگ کریمہ کے دوران میدانِ جنگ میں فوجیوں کی مدد اور تیمارداری کیلئے پہنچی…. اور اسی پیشے کو عظمت سے ہمکنار کیا۔ عیسائی مذہب کے مطابق انسانیت کی خدمت خدا کے حکام کی انجام دہی ہے۔
ا ور یہ تصور اسلام کے بنیادی اصولوں میں شامل ہے …. اس کے باوجود مغربی مؤلفین نے لکھا ہے کہ نرسنگ مسلمان خواتین کے مزاج کے مطابق نہیں ہے …. ان کے خیال میں اسلام نے پردے کی پا بندی لگا کر مسلمان خواتین کو نرسنگ کی طرف آنے سے روک دیا، لیکن در حقیقت ایسا نہیں ہے … عرب کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اسلامی دنیا میں نرسنگ کی ابتداء اسلام کے ظہور سے ہی ہو گئی تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت زہرہؓ نے خود یہ باوقار فریضہ انجام دیا …. جنگِ احد کے دوران مدینے سے چند میل کے فاصلے پر ر سولؐ نے ایک ہسپتال قائم کیا …. جس میں مدینے کی سرکرد ہ خواتین حضرت عائشہؓ کی قیادت میں زخمیوں کی تیمارداری کرتی تھیں۔ دمشق میں پہلا با قاعدہ ہسپتال کھولا گیا…. جس کا سنگ ِ بنیاد خلیفہ بن عبد المالک نے رکھا۔ یہاں ڈاکٹروں اور نرسوں کو باقاعدہ ملازم رکھا جاتا تھا اور ان کو رہائش کی سہولتیں بھی میسر تھیں۔ لاہو ر کے میو ہسپتال میں 1884ء میں نرسنگ سکول کا قیام عمل میں آیا… جہاں کی پہلی نرس ایک برطانوی خاتون تھی۔ تمام تر سرکاری ہسپتالوں میں یورپین اور اینگلو کے آغاز سے پچاس سال بعد لاہو ر کی ایک مسلمان خاتون کو نرسنگ سکول میں داخلہ ملا۔ مسلمان لڑکیوں کو نرسنگ کی تربیت کیلئے اس خیال سے موزوں نہیں سمجھا جاتا تھا کہ وہ پردے کی وجہ سے اچھی نرس نہیں بن سکتیں۔ جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو یہاں ایک تربیت یافتہ نرس تھی….. جس کا نام عالیہ بیگم تھا ….. انہوں نے لاہور کے نرسنگ سکول سے تعلیم حاصل کی تھی۔ اس وقت میو ہسپتال میں 400 مریضوں اور 1300 زخمیوں کے علاوہ مہاجرین کیلئے صرف چھ غیر تربیت یافتہ نرسیں تھیں۔ اس المناک صورتحال میں محترمہ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی خان اور دوسرے بڑے سماجی لیڈروں نے پاکستانی خواتین
سے اپیل کی کہ وہ اپنے زخمی اور بیمار ہم وطنوں کیلئے رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کریں…. اس کے جواب میں سینکڑوں لڑکیاں اور خواتین سکولوں، کالجوں اور گھروں سے نکل کر انسانیت کی خدمت کیلئے ہسپتالوں میں پہنچ گئیں۔ اور یوں نرسنگ کا ایک بڑے پیمانے پر آغاز ہوا… آج پاکستا ن میں ہزاروں خواتین… تربیت یافتہ نرسوں کی حیثیت سے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کے ہسپتالوں میں کام کر رہی ہیں۔ قیام پاکستان سے اب تک نرسنگ کے پیشہ کی ضرورت اور اہمیت کے پیشِ نظر تقریباً ہر بڑے شہر اور قصبے میں نرسنگ سکول قائم کئے گئے ہیں۔ جہاں پر ہر سال ہزاروں نرسوں کی تعلیم و تربیت کی جاتی ہے…. پاکستان کے بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں نرسنگ سکول قائم کئے گئے ہیں اور نرسز کی رہائش کیلئے ہوسٹل کی سہولت بھی موجود ہے۔ ان سکولوں میں سائنس مضامین میں تعلیم حاصل کرنیوالی طالبات کو میرٹ پر داخلہ دیا جاتا ہے۔ نرسنگ کا یہ چار سالہ کور س ہو تا ہے۔ طا لبات کا ہوسٹل میں رہنا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن شہر میں رہائش پذیر لڑکیاں ”ڈے سکالر“ کے طور پر تعلیم حاصل کر سکتی ہیں۔ ہر چھ ماہ بعد طالبات کے امتحان ہوتے ہیں….. نرسز کی ٹریننگ بھی ڈاکٹروں سے ملتی جلتی ہی ہے….. ان کو مریضوں کی مناسب دیکھ بھال سکھائی جاتی ہے۔ اور ہر مرض کے حوالے سے اس کی علامات، علاج، احتیاطی تدابیر وغیرہ ہر چیز کے بارے میں ٹریننگ د ی جاتی ہے۔ دن میں یہ نرسیں کلاسیں اٹینڈ کرتی ہیں او ر رات کو ہسپتال میں بطور نرس فرائض انجام دیتی ہیں۔ و ہاں کی سنیئر نرسز اور ڈاکٹرز عملی طور پر ان کی تربیت کرتے ہیں۔ اور مریضوں کی دیکھ بھال کی تربیت دی جاتی ہے۔ حکومت پاکستان نرسنگ پروفیشن کی اہمیت کے پیشِ نظر نرسوں کو بہت سہولیات فراہم کر ر ہی ہے۔
تاکہ زیاد ہ سے زیادہ خواتین اس طرف آئیں….. ترقی پذیر ملک ہونے کی حیثیت سے ہمار ا ملک صحت کے حوالے سے بیشمار مسائل کا شکار ہے۔ جس کیلئے ہمیں بہت زیادہ ڈاکٹروں، نرسوں اور ہیلتھ ورکرو ں کی ضرورت ہے۔ زیرِ تربیت نرسوں کی تعلیم و تربیت اور رہائش بالکل مفت ہوتی ہے….. نرسنگ سکول کے داخلے پر ہی ہر نرس کو مناسب ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے اخراجات پورے کر سکیں۔ ان کیلئے ہاسٹل میں رہنا بھی بالکل مفت ہوتا ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اکثر نرسز کو سرکاری ہسپتالوں میں ملازمت مل جاتی ہے۔ ورنہ پرائیوٹ ہسپتالوں میں بھی بہت اچھی تنخواہ پر انہیں بہت جلد ملازمت مل جاتی ہے۔ لہذا جو خو اتین اس پیشے میں آنا چاہیں ان کیلئے روزگار کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ حکومت یہ سب سہولیات اس لئے فراہم کرتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین اس پیشے کی طرف آئیں۔ کر اچی کی آغا خان یونیورسٹی پچھلے تقریباً 40 سال سے کینیڈا کی ”ایم سی ماسٹر یونیورسٹیز سکول آف نرسنگ“ کیساتھ ملکر پاکستان میں نرسنگ پروفیشن کی تعمیرو ترقی کیلئے کوشاں ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستا ن کی 34 فیصد سے زیادہ
آبادی غربت کی حد سے بھی نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ایسے میں صحت کی صورتحال کے بارے میں ا ندازہ کرنا مشکل ہے۔ پا کستان میں نرسز عموماً دو طرح سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ایک وہ جو ہسپتال میں باقاعدہ نرس کے طور پر کام کرتی ہیں…. دوسری ہیلتھ وزیٹرز جو نرس…. مڈ وائف اور پبلک ہیلتھ ورکر کے طور پر اپنی خدمات انجام دیتی ہیں۔ اس طرح ان کا دائرہ کا ر دور دراز کے دیہاتوں اور قصبوں تک پھیلا ہوتا ہے۔ جہاں کے رہائشی لوگوں کی صحت و تندرستی کیلئے کام کرنا پڑتا ہے …. کیونکہ ان کے قریب کسی ڈاکٹر یا ہسپتال کی سہولت میسر نہیں ہوتی۔ اب تک پاکستان کی کئی نرسیں ٹریننگ کیلئے ایم سی۔ ماسٹر یونیورسٹی جا چکی ہیں اور وہاں کی نرسیں اور دوسرا تربیت یافتہ عملہ پاکستان میں نرسوں کی تربیت اور اس حوالے سے مختلف ورکشاپس کیلئے پاکستان آ چکا ہے۔ نرسنگ کیلئے مروجہ امتحانی طریقہ کار کو بہتر بنانے کیلئے صوبائی اور قومی سطح پر اس کی سخت ضرورت ہے۔