Warning: Undefined variable $forward in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 78

Warning: Undefined variable $remote in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 84

اب علاج معالجہ بھی صنعت کا درجہ اختیار کر چکا ہے،پروفیسر ڈاکٹر سید ملازم حسین بخاری

پروفیسر ڈاکٹر سید ملازم حسین بخاری

پرنسپل آزاد جموں و کشمیر، میڈیکل کالج مظفر آباد
انٹرویو …. عائشہ شفیق

پروفیسر ڈاکٹر سید ملازم حسین بخاری نہ صرف آزاد جمو ں و کشمیر میڈیکل کالج میں پرنسپل شپ کے فرائض بخوبی سر انجام دے رہے ہیں …… بلکہ دنیا بھر کے مختلف ممالک کی یونیورسٹیز اور اداروں میں ہونیوالی …… کانفرنسوں میں شرکت کرتے اور لیکچر دیتے ہیں۔ ملازم حسین بخاری ایسی متحرک اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں ….. جن کے چراغ فکر و علم کی روشنی میں تشنگان ِ راہ طلب اپنی اپنی منزلوں کی جانب گامزن ہیں…. ایسی ناقابلِ تسخیر ہستیاں ہمیشہ موجوں کے تلاطم سے بے خبر اپنی منزلوں کی جانب رواں دواں رہتی ہیں …..

یہ اپنے اندر پورا ایک ادارہ سموئے ہوئے ہیں ….. جن کی شمع علم سے لاکھوں طالب علموں اپنے مستقبل کو روشن اور تابنا ک بنا رہے ہیں ….. پا کستان میں مسیحا بن کر انسانیت کی خدمت میں سرگرم عمل نظر آتے ہیں …. پاکستان میں ہر مشکل گھڑی میں اپنی فیکلٹی اور عملے کیساتھ کٹھن علاقوں میں مریضو ں کے علاج معالجہ کیلئے سرگرمِ عمل نظر آتے ہیں۔ دنیا بھر کی اعلیٰ سے اعلیٰ آفرز کو ٹھکرا کر اپنے ملک میں رہنے اور پاکستان اپنے وطن میں ہی انسانیت کی خدمت کو ا پنا شعار بنایا ….. اگر پاکستان کے دیگر ڈاکٹرز اور نئے آنیوالے ڈاکٹرز سید ملاز م حسین بخاری جیسے عظیم اور مثالی لوگوں کے نقشِ قدم پر چل پڑیں …. تو ہمارا معاشرہ ایک صحت مند اور مثالی معاشرہ کہلا سکتا ہے۔ یہ ایک جہاد ہے جس پر سب کو ملکر محنت کرنا ہو گی۔پروفیسر ڈاکٹر سید ملاز م حسین بخاری کا خصوصی انٹرویو نذر قارئین ہے۔
س:۔ سر یہاں مظفر آباد کالج میں کب سے ہیں، یہاں پرنسپل شپ کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے کتنا عرصہ ہو گیا ہے ؟
ج:۔ مجھے یہاں مظفر آبا د آئے ہوئے تیسرا سال ہے …. اور آزاد جموں و کشمیر میڈیکل کالج مظفر آباد میں بطور ِ پرنسپل میری تعیناتی 26 مارچ 2021ء میں ہوئی۔
س:۔ آزاد کشمیر میں کتنے میڈیکل کا لجز ہیں اور کب سے قائم ہیں ؟
ج:۔ آزاد کشمیر میں چار میڈیکل کالجز ہیں، پبلک سیکٹر میں تین ہیں اور پرائیویٹ سیکٹر میں ایک نرسنگ

سکول ہے …. جو میر پور میں ہے۔ ہمار ا کالج پبلک سیکٹر میں ہے جو 2011ء سے کام کر رہا ہے۔
س:۔ یہاں کا نظامِ تعلیم کیسا ہے؟
ج:۔ تینوں میڈیکل کالجز کا نظام تعلیم ایک جیسا ہے ….. اور یہاں پر یونیورسٹی
آف ہیلتھ سائنسز کا تخلیق کردہ ماڈیو لر سسٹم پڑھایا جاتا ہے۔
س:۔ ڈاکٹر صاحب ! آپ نے باہر کے ممالک سے بھی تعلیم حاصل کی ؟
ج:۔ میں نے باقاعدہ طور پر اپنے ملک سے ہی تعلیم حاصل کی ….. مگر ریسرچ اور سر ٹیفکیٹ کور سز کیلئے پاکستان، جاپان، آسٹریلیا اور امریکہ میں رہا۔
س:۔ سر…. آپ دنیا کے کن کن ممالک میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ، تفصیل بتائیں گے ؟
ج:۔ تفصیل تو مجھے بھی یاد نہیں ….. مگر میں ڈیڑھ سال امریکن یونیورسٹی آف بار بیڈ وس میں ”ایسوسی ایٹ ڈین“ کے فرائض انجام دیئے …. بحرین میں کنگ حمد میڈیکل یونیورسٹی میں کچھ عرصہ ”پروفیسر آف پیتھالوجی“ رہا۔ تقریباً 37 مما لک میں کانفرنسز اور ورکشا پس میں شرکت کیں۔ او ر تقریباً 70 کے قریب ممالک میں جانے کے مواقع ملے۔ ملائیشیا…. سنگا پور…. فلپائن … انڈیا …. ایران … عراق …. سعودی عرب …. یو اے ای…. سمیت کافی مسلم ممالک کی کانفرنسز میں شرکت کی۔ امریکہ، یورپ، کینیڈا سمیت کریبیئنز ویسٹ انڈیز کے ممالک دیکھنے کے

مواقع بھی ملے۔
س:۔ آپ نے ماشاء اللہ سے دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا اور اپنی خدمات انجام دیں …. مستقل پاکستان میں ہی رہنا اور یہیں جاب کرنے کو ہی کیوں فوقیت دی؟ آپ کو تو دنیا بھر میں بیشمار آفرز تھیں؟
ج:۔ آپ کی بات بالکل درست ہے ….. میں پاکستان سے بہت پیار کرتا ہوں …. اور اسی ملک میں جینا اور مرنا پسند کروں گا ….. ساری دنیا گھوما ہوں …. مگر پاکستان پوری دنیا سے خوبصورت ملک ہے …. اس ملک جیسا دنیا میں کوئی ملک نہیں ….. اور قدرتی و جغرافیائی وسائل سے مالا مال ہے …. میں نے سوچا اس ملک نے مجھے اتنی پہچان دی ….. تو کیا صرف دولت کی خاطر باہر چلا جاؤں …. تو اس ملک کیساتھ نا ا نصافی ہو گی۔
س:۔ سر … آپ تو ساری دنیا وزٹ کر چکے ہیں …. پھر بھی پاکستان میں مستقل رہنا اور یہیں ملازمت کو ترجیح دی ….. اس کے برعکس یہاں کے زیادہ تر ڈاکٹرز اور دیگر شعبوں کے لوگ پڑھ لکھ کر پاکستان کو چھوڑ کر باہر کے ممالک کا رخ کر رہے ہیں ….. کیا کہیں گے؟

ج:۔جب آپ محنت کر کے یہاں اس مقام تک پہنچ گئے ہیں تو آگے بھی اللہ کی ذات پر یقین رکھیں…. رزق تو اللہ کی ذات نے ہی دینا ہے ….. دنیا کے جس کونے میں بھی آپ ہو ں گے ….. …. یہ تو بد دیانتی ہے ….. جو اپنے ملک کو چھوڑ کر دوسرے ممالک کا رخ کر رہے ہیں وہ صرف اور صرف پیسے کی خاطر ….. اپنے ذاتی مفادات کی خاطر جا رہے ہیں …. لیکن انتہائی افسوسناک صورتحال ہے …. اپنے اداروں …. اپنی سیٹوں سے ہٹ کر مریضوں کو کبھی مفت چیک کر لیں …. کسی بیوہ ….. غریب ….. یتیم کو بھی دیکھ لیں …. انسان ایک اکائی ہے اور معاشرہ اکائی سے ملکر بنتا ہے …. سب مل کر اس ملک کا سوچیں اور اپنا اپنا حصہ ڈالیں…ایمانداری سے کام کریں اسی ملک میں رہ کر۔ تو دیکھیں ہمار ا اپنا ملک ہی جنت بن

سکتا ہے۔ اور مسائل بھی کم ہو سکتے ہیں۔
س:۔ مظفر آباد جیسے پہاڑی او ر کٹھن علاقے میں ذمہ داریا ں نبھانا …. ایک جہاد سے کم نہیں …. کیسا محسوس کرتے ہیں ؟
ج:۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے …. مظفر آ باد اچھے لوگوں کا علاقہ ہے …. خوبصورت اور صحت افزاء مقا م ہے…. اور فیکلٹی بہت اچھی اور تعاون کرنیوا لی ہے۔ یہاں سیاست کم ہے … لوگ زیاد ہ تر اپنے کام سے مخلص ہیں …. اس لئے ذمہ داریا ں نبھانے میں مشکلات در پیش نہیں آتیں …. فیکلٹی اور سپوٹرنگ سٹاف سے کام لینا …. لیڈر کے ویژن پر منحصر ہوتا ہے۔
س:۔ یہاں کالج اور طالب علموں کے کیا کیا مسائل ہیں ؟
ج:۔ طلباء و طالبات کے مسائل تو ہر جگہ ہوتے ہیں …. مگر ان کا حل بھی موجو د ہوتا ہے …. یہاں سردی بہت زیادہ ہوتی ہے اور وہ طلباء جو باہر کے ممالک سے آئے ہوتے ہیں ….. انہیں کچھ مشکلات ہوتی ہیں لیکن وقت کیساتھ ساتھ وہ بھی ایڈ جسٹ ہو جاتے ہیں۔ کالج چونکہ ابھی نئی بلڈنگ میں شفٹ ہونا ہے …. فیڈرل گورنمنٹ کے فنڈز دینے کا طریقہ کار بہت سست روی کا شکار ہے …. جس سے کسنٹرکشن میں تاخیر ہو رہی ہے …. فیکلٹی کو پورا کرنا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ بجٹ اور فنانس کے مسائل بہت زیاد ہ ہیں۔ فیکلٹی مستقل نہیں ہے۔ اور کنٹر یکٹ پر ہوتی ہے ….. اسی طرح سپورٹنگ سٹاف بھی کنٹر یکٹ پر ہے۔ ٹیچنگ کیدڑ سسٹم بالکل نہیں ہے …. یہ چند مسائل بہت اہم ہیں۔ ہمارے تعلیمی نظام میں سب سے بڑا مسئلہ وسائل کی غیر مساوی تقسیم ہے۔ ہمارے معاشی نظام میں جس طرح امیر سے امیر تر ہو رہا ہے اور غریب سے غریب تر۔ اسی طرح ایک ہی جماعت میں بیٹھے …. دو طلبہ میں بھی یہی فرق ہے۔ اس کا تعلق اساتذہ کی قابلیت

اور ہمارے تعلیمی نظام دونوں سے ہے۔ اگر کوئی طالب علم ایک مضمون میں کمزور ہے اور دوسرے میں نہیں تو یہ قصور طالب علم کا نہیں۔ اسے اپنی مرضی اور پسند کا مضمون سلیکٹ کرنے کا اختیار ہونا چاہئے تاکہ وہ اس شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کر سکیں۔
س:۔ آپ کے کالج کے دوسرے ڈاکٹرز ، عملہ اور ان کا رویہ کیسا ہے ؟
ج:۔ بہت ہی اچھے اور تعاون کرنے والے لوگ ہیں …. سا ری فیکلٹی کا معیار بہت عمدہ ہے …. اخلاقی اور تعلیمی معیار قابل ِ فخر ہے۔
س:۔ مظفر آباد میڈیکل کالج کے علاوہ بھی آپ اور آپ کے عملہ کے لوگ دوسرے علاقو ں میں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں ؟
ج:۔ کشمیر کا علاقہ لمبائی میں زیاد ہ ہے اور کٹھن مقامات پر آبادیاں ہیں ….. کشمیر پہاڑی علاقہ ضرور ہے مگر یہاں لٹریسی ریٹ پاکستان سے زیاد ہ ہے …. یہاں پر ڈی ایچ کیو، ٹی ایچ کیو، آر ایچ یو، بی ایچ یو اور چھوٹی چھوٹی ڈسپینسریز کا جال بچھا رہتا ہے اور ان میں تربیت یافتہ عملہ موجود رہتا ہے۔

ہم لوگ مختلف مقامات پر میڈیکل کیمپس لگاتے ہیں اورٹیلی میڈیسن کے ذریعے دو ر دراز کے علاقوں کے مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔
س:۔ کیونکہ کشمیر اور مظفر آباد میں یقینا مسائل اور بیماریاں زیاد ہ ہیں … اتنی سہولیات بھی نہیں ۔اور دور دراز سے مریض بیچارے ہسپتال بھی نہیں پہنچ سکتے۔ آپ اور آپ کی فیکلٹی کے دیگر ڈاکٹر حضرات ان لوگوں کیلئے کوئی خاص اقدام کرتے ہیں ؟
ج:۔ آپ کی بات درست ہے …. کہ پہاڑی علاقے کی وجہ سے سب مریض ایمز یا سی ایم ایچ نہیں پہنچ سکتے ….. تو ہم لوگ میڈیکل کیمپس کا اہتمام کرتے ہیں اور ٹیلی میڈیسن کے ذریعے ان کو مشورہ جات دیتے ہیں …. ٹیلی لیب بھی شروع کرنے کا ارادہ تھا مگر بجٹ اور حکومت کے عدمِ تعاون کی وجہ سے نہیں شروع کر پا رہے …. مجھے امید ہے

انشاء اللہ بہت جلد اس کا انتظام بھی ہو جائے گا۔
س:۔ ڈاکٹر صاحب ! الارمننگ صورتحال ! ہماری قوم اب ایک بیمار قوم کہہ سکتے ہیں …. تقریباً ہر دوسرا تیسرا شخص کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہے …. کیا کہیں گے …. کیا وجوہات ہیں ؟؟
ج:۔ اس کی بڑی وجہ تو موجودہ دور کی مہنگائی ہے …. جس نے ہر آ دمی کو ذہنی مریض بنا دیا ہے …. اس کے بعد خوراک میں ملاوٹ، ناقص ادویات قوت مدافعت کم کر رہی ہے۔ جس سے بیماریاں بڑھ رہی ہیں دن رات کی ملازمت کرنا …. بلکہ کچھ لوگ تو تین تین ملازمتیں کرتے ہیں …. جس سے جسم کو مناسب

آرام نہیں مل پاتا …. وہ انسان جلد مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
س:۔ آجکل ایسی ایسی بیماریوں نے جنم لے لیا ہے ….. جو وہم گمان میں بھی نہیں ….. کہ انسانی عقل دنگ ر ہ جاتی ہے …….. کیا کہیں گے ؟
ج:۔ تپ دق (ٹی بی) میعادی بخار (ٹائیفائیڈ) ہائی بلڈ پریشر، شوگر (ذیابیطس)، دمہ (ایستھما)، ہارٹ اٹیک، ہیمو فیلیہ، تھیلا سیمیا، اینیمیا اور کینسر نئی بیماریاں نہیں ہے بلکہ بہت پرانی بیماریاں ہیں …..پہلے چونکہ صحیح تشخیص نہیں ہوتی تھی۔ ا ور آبادی کم تھی اس لئے بیماریاں کم نظر آتی تھیں۔ اور پھر آجکل سوشل میڈیا کا دور ہے لوگوں میں شعور و آگہی زیادہ ہو گئی ہے۔ ان بیماریوں کے علاوہ وائرل بیماریاں نئی ہیں مثلاً ہیپا ٹائٹس، کوویڈ ، نیپاہ اور ایڈز …. اس کی وجہ آبادی کا بڑھنا ہی ہے اور انسانوں کی غیر فطری طرزِ زندگی کی وجہ سے بھی ”وائرل بیماریاں“ بڑھ رہی ہیں ….. ان میں کافی بیماریاں جانوروں سے انسانوں میں آ گئیں اور پھر ایک انسان سے دوسرے انسان میں پھیلیں۔
س:۔ سر ہسپتال مریضوں سے بھرتے جا رہے ہیں …… بیماریوں اور مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے … بہت پریشان کن صورتحال ہے اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے ؟؟
ج:۔ اس کی ایک بڑی وجہ بے ہنگم آبادی میں اضافہ، چونکہ پاکستان میں آبادی کی شرح ترقی یافتہ ممالک میں زیاد ہ ہے ، یہ تقریباً تین فیصد ہے جس کی وجہ سے اس ملک کی آبادی 241,805,886 ہو چکی ہے۔ اس شرح سے ڈاکٹرز ا ور ہسپتالوں میں اضافہ نہیں ہے ….

ہر تیرہ سو انسانوں کیلئے ایک ڈاکٹر ہے جبکہ آزاد کشمیر میں تین ہزار افراد کیلئے ایک ڈاکٹر ہے جو بہت کم ہے اس کے علاوہ تشخیص کا عمل بہت سست روی کا شکار ہے …. ہمارا لائف سٹائل تبدیل ہو چکا ہے …. ہوٹلز کے کھانے اور فاسٹ فوڈز کیوجہ سے بیماریو ں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آرام کی کمی، ورزش نہ کرنا، ذہنی پریشانیاں، تفکرات امراض میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ اور ناقص ادویات ایک اور بہت بڑا فیکٹر ہے۔ حکومتوں کی صحت کے شعبے کی طرف عدمِ توجہی بھی اس تشویش کو بڑھا رہی ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ بیماریو ں کے بڑھنے کا سبب بن رہا ہے۔ ا س کے علاوہ بھی بہت سی وجوہات ہیں …. جن کا ذکر کرنا اس کم وقت میں ممکن نہیں ہے۔
س:۔ ایک اچھی صحت مند زندگی گزارنے کیلئے کیا کیا کرنا چاہئے ؟
۔ اس میں بہت سادہ بات ہے مگر ہم اس پر غور نہیں کرتے، اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ادارہ صحت کے مطابق فالج، ذیابیطس اور حرکت قلب بند ہونے کے 80 فیصد اور کینسر کے 40 فیصد واقعات ایسے ہوتے ہیں ….. جنہیں بہترین حفاظتی اقدامات کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے …. زندگی میں تھوڑی سی تبدیلی کرنے

سے آپ بہترین صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں، کم کھانا، ایک کھانے اور دوسرے کھانے میں بارہ گھنٹوں کا وقفہ رکھنا، روزانہ پندرہ سے تیس منٹ ورزش کرنا، سات سے آٹھ گھنٹے کی نیند کرنا، دوپہر کو قیلولہ کرنا، رات کو جلدی سونا، اور صبح کو جلد جاگنا، سگریٹ نوشی اور شراب سے پرہیز، پریشانیوں کا سر پر سوار نہ کرنا، موٹاپے کو کنٹرول، خوراک میں تازہ سبزیوں، پھلوں، مچھلی اور زیتون کو شامل کرنا، با مقصد زندگی گزارنا ڈپریشن سے دور رہنا، بچوں اور گھر والوں کو و قت دینا، نعمتوں پر شکر گزاری کرنا، نماز اور تہجد گزاری کرنا ….. زندگی گزارنے میں

مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ کوالٹی آف لائف بہت اہم ہے جسے ہم ضائع کر دیتے ہیں۔
س:۔ سر دیہاتوں میں طبی سہولیات کم ہوتی ہیں ….. مگر وہاں بیماریا ں کم اور عمریں زیادہ ہوتی ہیں، اس کی کیا وجہ ہے ؟
ج:۔ کسی حد تک آپ کی بات درست ہے …. کیونکہ وہ فطری ماحول میں وقت گزارتے ہیں، کھلے ماحول میں سانس لیتے ہیں …. خالص غذا، تازہ سبزیاں، اور عمدہ گندم کھاتے ہیں۔ زیادہ کام کرتے ہیں …. رات کو جلد سو جاتے ہیں …. اور صبح جلدی اٹھنے کے عادی ہوتے ہیں …. سارا دن پیدل چلنا ان کی صحت کا راز ہے ….. سوشل میڈیا کا کم استعمال اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کر کے ذہنی سکون حاصل کرتے ہیں۔ ذہنی سکون ….. جسمانی صحت کو برقرار رکھنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔
س:۔ لائف سٹائل اور کھانے پینے کی عادات انسانی صحت پر کس قدر اثر انداز ہوتی ہیں ؟
ج:۔ لا ئف سٹائل اور کھانے پینے کی عادات انسانی صحت پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں …. مگر موجودہ دور میں ان کو بدلنا کافی مشکل ہو گیا ہے …. جس کی وجہ سے بیماریاں زیادہ ہو گئیں ہیں ….. رات کو دیر تک جاگنے سے جسم آرام دہ کیفیت میں نہیں رہتا اور بھوک لگتی ہے …. غذا رات کے پچھلے پہر استعمال کرنے کا عا دی ہو جا تا ہے، جس سے انسان غیر متوازن رہنے لگ جاتا ہے اور جسم کے اندر کے خلیے بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہونے لگتے ہیں …… پیٹ بڑھنے لگتا ہے۔ سوشل میڈیا کے زیاد ہ استعمال سے ”ذہنی دباؤ اور پر یشانی“ کے عنوان سے ایک تحقیق کی گئی …. جس کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ آپ جتنا وقت سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں ….. اتنا ہی آپ کی طبیعت میں سے خوشی کا عنصر کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ دوستوں کی تصویریں اور سرگرمیاں دیکھ دیکھ کر آپ کو احساس کمتر ی ہونے لگتا ہے، آپ اپنا تقابل دوسروں سے کرنے کے عادی ہو کر اپنی خوشی بھول جاتے ہیں …. ہر وقت اداسی اور پریشانی کا شکار رہنے لگ جاتے

ہیں۔ اچھی صحت کے حامل افراد سوشل میڈیا پر محدود وقت گزارتے ہیں …. آپ یقین کریں کہ آپ سوشل میڈیا سے دور رہ کر زیادہ خوش اور صحت مند زندگی گزاریں گے۔
س:۔ کچھ ہسپتالوں میں بھی لوٹ مار جاری ہے ۔۔۔ خا ص کر پرائیویٹ ہسپتالوں میں ایک ایک ٹیسٹ اتنا مہنگا ہے اور ڈاکٹرز کی فیسیں بہت زیاد ہ ….. ایک غریب بیچارا تو پہلے ہی مر رہا ہوتا ہے اور آگے یہ سنگین صورتحال ؟؟
ج:۔ آپ کی بات درست ہے مگر اس کی اہم وجہ ملک میں ایک اچھی اور یکساں صحت پالیسی کا نہ ہونا، سرکاری ہسپتالوں میں رش، ڈاکٹرز کی عدم توجہی …. پرائیویٹ سیکٹرز کو مضبوط کر ر ہی ہے اور حکومت پرائیویٹ ہسپتالوں او ر میڈیکل کے اداروں کو کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آتی ہے …. اور اس لئے علاج بھی پہلے عبادت سمجھ کر کیا جاتا تھا …. اب ایک کاروبار اور صنعت کا درجہ اختیار کر گیا ہے۔ علاج سے زیادہ تشخیص پر خرچ ہو جاتا ہے ….. جس سے ایک عام مریض خوف کی و جہ سے بھی پرائیویٹ کا رخ کرنے سے ڈرتا ہے۔۔
س:۔ ایم ڈی کیٹ انٹری ٹیسٹ پر آپ کی کیا رائے ہے ؟
ج:۔ ”ایم ڈی کیٹ“ ہمارے زمانے میں نہیں ہوتا تھا، جب بورڈ زیادہ ہو گئے اور نقل و سفارش کا رجحان بڑھا تو پھر اس ٹیسٹ کا آغاز کیا گیا تاکہ میڈیکل کالج میں آنیوالے ہر بچے کو یونیفا رم طریقے سے دیکھا جا سکے۔ مگر وقت کیساتھ سا تھ اس میں بھی نقل و سفارش کا عمل شرو ع ہو گیا۔ آجکل تو ”بلو ٹوتھ“ کے ذریعے نقل کروائی جاتی ہے اور اس کا معاوضہ لاکھوں میں لیا جاتا ہے۔ اس دفعہ کے پی کی اور سندھ میں کافی شکایات ملی ہیں اور ٹیسٹ دوبار ہ لیا جا رہا ہے …. ہم نے آزاد کشمیر میں ٹیسٹ لیا …. جہاں پر تین مراکز تھے ان کی نگرانی تینوں پرنسپلز نے کی اور اللہ کا شکر کہ یہاں پر کسی قسم کی نقل اور شکایت موصول نہیں ہوئیں …. میرے نزدیک ”ایم ڈی کیٹ“ لیا جانا چاہئے …. پورے ملک میں ایک ہی وقت اور ایک ہی معیار کے مطابق لیا جانا چاہئے۔ ”ایم ڈی سی اے ٹی“ ایک امتحان جو طلباء میڈیکل کے شعبے میں ڈگری حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ ٹیسٹ لازمی ہے۔ یہ امتحان بذاتِ خود پیچیدہ نہیں ہے لیکن بہت سی اساتذہ اور شخصیات نے اسے اتنی افواہوں سے گھیر لیا ہے جو میڈیکل کے شعبے میں دلچسپی رکھنے والے ہر طالب علم دوسروں کا ا نتخاب کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔
س:۔ کیا پیغام دیں گے …. ہماری قوم کو …. ’’صحت ہے تو زندگی ہے“ …. آجکل کے دور میں ایک اچھی صحت مند زندگی کیسے گزاری جائے ؟

ج:۔ میرا ایک ہی پیغام ہے کہ خوش رہنا سیکھیں …. اللہ سے قربت حاصل کرنے کی کوشش کریں …. صفائی کا خاص خیال رکھیں ….. چھ سے سات گھنٹے پر سکون نیند لیں …. اچھی اور متوازن غذا کھائیں …. کم کھائیں …. اور کم از کم آدھا گھنٹہ واک ضرور کریں …. روزا نہ ورزش کریں …. پیدل چلنے کی عادت اپنائیں …. بیمار ہونے پر اچھے ڈاکٹر سے رجوع کریں ….. سال میں اپنا ایک تفصیلی چیک اپ ضرور کروائیں آنکھوں اور دانتوں کی صحت کا خا ص خیال رکھیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں