Warning: Undefined variable $forward in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 78

Warning: Undefined variable $remote in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 84

اردو کی ترویج ہمارے اہل اقتدار کی ترجیح نہیں رہی

پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف …. چیئر پرسن اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد
انٹرویو…..عائشہ شفیق
پاکستان میں اردو ادب کی دنیا کا ایک بڑا نام ….. پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف چیئر پرسن اکادمی ادبیات پاکستان کے عہدے پر فائز ہیں۔ اس سے پہلے وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں ڈین کلیہ زبان و ادب رہیں اور آٹھ سال تک اسی یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے بھی خدمات سر انجام دے چکی ہیں۔ وہ پاکستان میں اردو کے تحقیقی مجلات کی اشاریہ سازی کے پہلے ادارے ”مرکز اشاریہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد “ کی بانی ہیں ۔ جس کے تحت ’’اشاریہ اردو جرائد (انڈیکس آف اردو جرنلز) کی چار جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ وہ اہم تحقیقی مجلات کی مدیر بھی رہ چکی ہیں ۔ جن میں لاہور یونیورسٹی اوف مینجمنٹ سائنسز کا مجلہ ”بنیاد“ اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کا مجلہ ’’معیار“ شامل ہے۔

وہ کئی ملکی اور غیر ملکی مجلات کی مجلس ادارت و مشاورت کی رکن اور تجزیہ کار ہیں ….. ان میں آسٹریلیا، امریکہ اور برطانیہ سے شائع ہونیوالے مجلات بھی شامل ہیں۔ مزید برآں وہ کئی اہم قومی مجالس کی رکن بھی رہ چکی ہیں۔ امریکہ اور یورپ کی کئی جامعات میں انہیں لیکچر دینے کیلئے مدعو کیا گیا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف کی علمی دلچسپی کا نمایاں میدان نو آبادیاتی عہد میں غرب شناسی، سیرت نویسی، برِعظیم کی صوفیانہ روایت اور اردو ادب، بالخصوص فکشن کا سماجی و سیاسی مطالعہ ہے ….. تاہم ان کی اہم علمی جہت تحقیق متن ہے …. انہوں نے یورپ کی مختلف لائبریریوں سے اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے درجن بھر قدیم مخطوطات دریافت کئے …. اور ان کی ترتیب و تدوین کر کے شائع کیا۔ تنقید اور ترجمہ بھی ان کی دلچسپی کے مظہر ہیں …. ان کے کچھ تنقیدی کام اپنی نوعیت کے اعتبار سے اساسی تصور کئے جاتے ہیں۔ جن میں ”اردو ادب پر 9/11 کے اثرات“…. ”اردو سیرت پر نو آبادیاتی اثرات“ …… اور ”جنوب ایشیائی مسلمانوں کا تصو رِ مغرب“ جیسے موضوعا ت شامل ہیں۔ ترجمے کے میدان میں چند انگریزی نظموں اور نثر پا روں کے اردو ترجمے کے علاوہ انہوں نے سائنس، مابعد الطبیعیات اور تصورِ خدا کے حوالے سے لکھی گئی ایک ضحیم کتاب کا بھی اردو ترجمہ کیا ہے۔ ڈ اکٹر نجیبہ عارف نے قصیدہ بردہ شریف کا عربی سے اردو میں منظوم ترجمہ بھی کیا ہے….. جو ”نواح کاظمہ“ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف کی تخلیقی اعتبار سے شاعری، فکشن، رپور تاژ نگا ری او ر سفر نامہ نگاری دلچسپی کے خاص علاقے ہیں۔ نجیبہ عارف کی شاعری کے مجموعے ….. ”معانی سے زیادہ “ کو 2015ء کی بہترین ادبی کتاب کا ایوارڈ مل چکا ہے ….. اس کے علاوہ ….. روحانی تلاش، جستجو

کے احوالِ سفر پر مبنی کتاب ”راگنی کی کھوج میں“ افسانوں کا مجمو عہ ”میٹھے نلکے“ ….ناول ”مکھوٹا“…. دو سفر نامے او ر متعد د انشائی مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی تنقید و تحقیق اور ادبی تخلیقات پر مبنی سترہ کتب اور معتبر علمی مجلات میں ساٹھ سے زائد مقالات اب تک طبع ہو چکے ہیں …. اور مزید زیر ِ اشاعت ہیں …. وہ اردو انگریزی میں لکھتی ہیں …. اور فارسی ….. عربی اور پنجابی سے بھی واقف ہیں …. ان کے مقالات اور کتب ….. امریکہ …. جرمنی، ایران اور ہندوستان سے بھی شائع ہو چکے ہیں ….. وہ گذشتہ تینتالیس (43)برس سے اردو زبان و ادب کے حوالے سے تخلیقی، تصنیف و تالیف اور تدریس میں مصروفِ عمل ہیں….پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف بھر پور …… خوبصورت مسکراہٹ …. خوبرو شخصیت کی مالک ہیں …. ان کا اندازِ گفتگو …… انتہائی دلفریب …. دل آویز ہے ….. اس سے بڑھ کر وہ اپنے اندر علم کا سمندر سموئے ہوئے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف کا ہم نے خصوصی انٹرویو کیا …. جو نذرِ قارئین ہے۔

س:۔ پاکستان کے ایک بڑے ادارے ”ادبیات آف لیٹرز“ کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے کیسا محسوس ہو رہا ہے…. کیسا رسپانس ہے ملنے والوں کا ؟
ج:۔ بہت اچھا محسوس ہو رہا ہے …. احباب ….. ادبی حلقوں اور ا ہل ِ علم و ادب کا ردِ عمل حیران کن حد تک مثبت اور حوصلہ افزاء ہے۔ ملک بھر سے اور ملک سے باہر بھی اردو زبان و ادب سے تعلق رکھنے والی نامو ر شخصیات نے اس تقرر کو سراہا ہے۔ اور مجھے مبارک باد اور اپنی حمایت کے پیغام بھیجے ہیں۔

س:۔ یہاں کن مسائل کا سامنا ہے ؟
ج:۔ مشکلات و مسائل تو ہر جگہ …. ہر ادارے اور ہر ذمہ داری کیساتھ ہوتے ہیں ….یہاں بھی ہیں مگر میں پر ا مید ہوں کہ مسائل پر آہستہ آہستہ قابو پا لیا جائے گا


س:۔ رائٹرز اور ادبی لوگو ں کو کن مسائل کا سامنا ہے ؟
ج:۔ مختلف طرح کے مسائل ہیں …. کتابوں کی اشاعت کا مسئلہ ہے …. تصنیفی حقوق کا مسئلہ ہے …. بین الاقوامی سطح پر شناخت حاصل کرنے کیلئے مناسب و سائل کی کمی کا مسئلہ ہے …. تصانیف کی رائلٹی کا مسئلہ ہے ….. کاغذ کی گرانی اور دیگر اخراجات کی وجہ سے کتابوں کی اشاعت کا معاملہ دشوار سے دشوار ہوتا جا رہا ہے ….. کتابوں کی بڑے پیمانے پر تقسیم نہیں ہو پاتی …. جس کی وجہ سے ایک شہر سے چھپنے والی کتاب دوسرے شہر …. بلکہ دوسرے پبلشر کے پا س بھی نہیں پہنچتی۔ ا س سے مصنف کی محنت اور تخلیقی کاوش قاری تک نہیں پہنچ پاتی۔
س:۔ بہت بڑا المیہ کہ بچوں کو اردو پڑھنی نہیں آتی ….. کیا وجہ ہے ؟

ج:۔ میرا خیال ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف تو اردو کی بطور زبان و تدریس کا عمل غفلت کا شکار ہے …. اور دوسری طرف اردو کی ترویج ہمارے اہل ِ اختیار و اقتدار کی ترجیح نہیں رہی…. جس روز اہلِ اقتدار نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اردو کو صحیح معنوں میں اپنا لیا جائے …… اس روز تدریس کا عمل بھی بہتر بنا لیا جائے گا اور یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔
س:۔ میڈیم ! آجکل ٹیکنالوجی کے دور میں ا ردو ادب کی اہمیت کم تو نہیں ہو گئی ؟
ج:۔ نہیں ایسا نہیں ….. بلکہ ٹیکنالوجی کے زمانے میں ادب کی اہمیت تو پہلے سے بھی بڑھ گئی ہے….. کیونکہ ٹیکنالوجی انسان کو مشین بنانے پر تلی ہوئی ہے …. ایسے میں انسانی جذبات و احساسات کو زندہ رکھنے اور انسانیت کا درد پیدا کرنے کیلئے ادب اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ادب انسان کو سائنس سے دور نہیں کر تا ….. بلکہ

انسان کی فطرت میں موجود تجسس اور ذوقِ علم کو اور بھی تیز کرتا ہے۔
س:۔ بچوں اور نوجوانوں میں دلچسپی کیسے بڑھائی جا سکتی ہے …. اردو ادب کو کیسے زندہ رکھ سکتے ہیں ؟
ج:۔ ہم اپنے ماحول اور عہد کے تقاضوں کے مطابق ایسا ادب تخلیق کر سکتے ہیں ….. جو ہمارے نوجوانوں کیلئے با معنی ہو اور ان کی روحانی اور فکری جستجو کو تسکین پہنچائے۔ ایسا ادب ہمارے ہاں ہر دور میں تخلیق کیا گیا ہے …. لیکن وہ ہر فرد تک نہیں پہنچ پاتا۔ ہم اس کیلئے میڈیا …. سوشل میڈیا …. اور دیگر ذرائع استعمال کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ادیب اور شاعر کے سماجی کردار کو فعال بنانے کیلئے مختلف فورمز یا مواقع تلاش کر سکتے ہیں۔ جن کے ذریعے نہ صرف ادیب کی آواز نوجوانوں تک پہنچے ….. بلکہ اس کی اہمیت اور سماجی مقام کا بھی ادراک ہو۔ سماج میں ادیب اور شا عر کو باعزت اور باوقا ر مقام ملے گا ….. تو نوجوانوں میں ادب کا شغف پیدا ہو گا۔
س:۔ اس مہنگائی اور پیسہ کمانے کی ٹینشن میں اردو ادب میں دلچسپی کیسے ممکن ہے ؟
ج:۔ مہنگائی تو واقعی بہت ہو گئی ہے ….. اور ہر طبقے کا فرد اس سے متا ثر ہو رہا ہے …. لیکن جنہیں ادب کا ذوق ہوتا ہے، وہ مہنگائی سمیت کسی بھی صورتحال سے گھبرا کر ادب سے ناتا نہیں توڑتے۔ ادب تو مصیبت کی گھڑی میں ….. انسان کا دردِ آشنا بن جاتا ہے ….. اور اسے مصیبت میں سہنے ….. کا حوصلہ اور قوت فراہم کرتا ہے۔ ادب سے دلچسپی رکھنے والے …. کبھی کاغذ اور قلم سے رشتہ نہیں توڑتے۔

مہنگائی کے دو ر میں …. جو لوگ کتاب تک خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے ….. وہ لائبریری سے لیکر پڑھ لیتے ہیں۔ کسی دوست یا استاد سے مستعار لے لیتے ہیں۔ پی ڈی ایف حاصل کر لیتے ہیں۔ بلکہ میں تو سمجھتی ہوں کہ اگر کوئی اسے روزگار کے ذریعے کے طور پر اختیار کرنا چاہے تو اس میں بھی بے شمار مواقع ہیں۔

س:۔ آئی ٹی کے دور میں ادب کو کیسے بچایا جا سکتا ہے؟
ج:۔ آئی ٹی کو بھی ادب کی ترویج کا ذریعہ بنا لیں ….. روایتی ذرائع کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہم ادب کا دائرہ کار بہت وسیع کر سکتے ہیں۔
س:۔ میڈ یم ! ادیبوں کو استحصال سے کیسے بچایا جائے ؟
ج:۔ ادیبوں کے استحصال کی کئی صورتیں ہیں ….. مگر میرے خیال میں فی زمانہ سب سے بڑا استحصال ان کے تصنیفی حقوق اور حقوقِ اشاعت سے متعلق ہے …. ادیب کو اپنی کتاب چھپوانے کیلئے کوئی پبلشر نہیں ملتا۔ ا گر ملتا ہے تو وہ ادیب کو رائلٹی نہیں دیتا …. ا لٹا ادیب ہی سے کتاب کی اشاعت کے اخراجات وصول کئے جاتے ہیں …. پبلشرز کے اپنے مسائل ہیں …. ان سب کو ایک بڑ ے دائرے میں رکھ کر دیکھنے کی ضرورت ہے تب ہی کہیں جا کر ہم ان مسائل کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔

س:۔ آپ اپنی کتابوں کی تفصیل بتائیں گی ؟
میری اب تک سترہ کتب شائع ہوچکی ہیں اورتین چار اس وقت مکمل ہونے کے قریب ہیں… ان کے نام یہ ہیں۔
مطبوعہ کتب۔
ج:۔ ممتاز مفتی۔ شخصیت اور فن۔ (پاکستانی ادب کے معمار سیریز)۔ اسلام آباد …. اکادمی ادبیات پاکستان، 2007 ء ۔ رفتہ و آئندہ … اردو ادب کا منظر نامہ۔2008ء۔ معیاری اردو قاعدہ۔ شریک مدیر۔ اسلام آباد: مقتدرہ قومی زبان، 2010ء ۔ اردو ادب کا نو مزاحمتی رجحان۔ 9/11 ….. اور پاکستانی ارد و افسانہ۔ (ا نتخاب و تجزیہ) اسلام آباد : پورب اکادمی2011ء ۔ ممتاز مفتی کا فکری ارتقاء۔ نفسیات، تصوف، اسلام ۔ لاہور: 2011ء ۔ بکل دے وچ چور۔ ممتاز مفتی کے متصوفانہ افسانے (انتخاب و تجزیہ) لاہور: 2012ء ۔ اللہ: ماورا کا تعین۔ ا نگریزی سے ترجمہ۔ لاہور ، 2012ء ۔ ا سلام پاکستان اور مغرب، علمی و ادبی تناظر۔ اسلام آباد: ادارہ تحقیقاتِ اسلامی و بین الاقوامی …. اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد 2015ء ۔ طبع دوم 2019 ء۔ معانی سے زیادہ شاعری، کراچی: شہر زاد، 2015ء۔ منتخب کلام اصغر گونڈوی۔ انتخاب۔ اسلام آباد: نیشنل بک فاؤنڈیشن 2016ء ۔ سیر ملک اودھ یوسف خان کمبل پوش کا نادر و غیر مطبوعہ سفر نامہ۔ راگنی کی کھوج میں۔ تاریخ جدید: سفر نامہ منشی اسماعیل بہ انگلستان ….. اٹھارہویں صدی کے دو نادر سفر نامے …. میٹھے نلکے ….. افسانے۔ نواح کاظمہ (منظوم اردو ترجمہ قصیدہ بردہ شریف) …. مکھوٹا ناول۔
زیر طبع کتب
جنوبی ایشیاء میں مسلمانوں کی غرب شناسی ….. تذکرہ شعرائے لکھنو۔ عبد الغفور نساخ کا ایک غیر مطبوعہ

تذکرہ، تدوین و تقدیم … تحشیہ ….. یادیں، جگہیں، چہرے اور خیال، سفر نامہ ……. فکشن پر تنقیدی مضامین کا مجموعہ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں