Warning: Undefined variable $forward in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 78

Warning: Undefined variable $remote in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 84

شاید اب ایسا نہ ہو

تحریر….پروفیسر،کالم نگار،شاعر…عابد کمالوی

پاکستان میں عام انتخابات کے پر ُ امن شفاف، غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انعقاد کی دعا کیساتھ ہماری ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے یہ گزارش ہے کہ وہ پاکستان کے قومی اداروں کی طرف سے انتخابات کے حوالے سے آنیوالے فیصلوں پر اپنے منفی اور مثبت ردِ عمل دینے کی بجائے اپنی پوری توجہ اس جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کی طرف مبذول کریں۔ جس سے اس ملک کی عوا م کا مستقبل بندھا ہوا ہے۔ ہم لکھاری لوگ صبح تا شام عوام میں رہتے ہیں ….. ان سے گفتگو کرتے ہیں ….. ان کا ردِ عمل جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ ذرائع ابلاغ اور سمارٹ میڈیا کے ذریعے بھی اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ رائے عامہ کس طرف جا رہی ہے؟ ا س سارے منظر نامہ کی روشنی میں ہم یہ اندازہ لگانے میں کسی حد تک کامیاب بھی ہو سکتے ہیں کہ عوام آئند ہ کس طرح کے نمائندے اور وزیراعظم کو دیکھنا چاہتی ہے۔ قومی ترقی اور قوم کا درد رکھنے والے لوگ یہی چاہتے ہیں کہ ایوان میں جانے والا ہر شخص نہ صرف اپنی ذات اور حلقے کی ترقی کے بارے میں سوچتا ہو بلکہ وہ قومی سوچ رکھتا ہو۔ محب وطن حلقے یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کا وزیراعظم وہ شخص ہو جو صحیح معنوں میں صادق و امین ہو۔ اس کا ماضی بے داغ ہو ….. اس کی زبان شائشہ ہو….. وہ قوم کا صحیح درد رکھتا ہو۔ نظریہ پاکستان اور قومی تشخص کے فروغ کیلئے مخلصانہ جذبے اس کے دل میں موجزن ہوں۔ وزارتِ عظمیٰ کے دوران قومی خزانے کی ایک ایک پائی کو امانت سمجھ کر خرچ کرنے اور عوامی مسائل کے دیرپا حل کی اہلیت رکھتا ہو۔ اور جب وہ اپنی آئینی مدت پور ی کرنے کے بعد عوام میں جائے تو ا س کے دامن پر بد عنوانی، ملکی مفادات کے منافی سرگرمیوں اور فرائضِ منصبی کی ادائیگی میں غفلت کے دھبے نہ ہوں۔ وہ قوم سے کئے گئے وعدوں سے پھرنے والا نہ ہو۔ اپنے پیش رو کے قومی مفادات پر مبنی منصوبوں کو جاری رکھے۔ ملکی وقار پر کسی قسم کی سودے باز ی نہ کرے۔ مز ہ تو تب ہے کہ اس کی حزب اختلاف بھی اس کی قائدانہ صلاحیتوں کی معترف ہو۔ پاکستانی سیاست کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ سیاسی لوگ ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہوئے کردار کشی میں سیاسی و جمہوری اقدار …. وقار اور شرافت و نجابت کی تمام حدیں پھلانگ جاتے ہیں۔ کردار کشی کی اس جنگ میں سیاسی رہنماؤں کی موجودہ و سابقہ بیویوں ….. بہنوں ….. بیٹوں اور دوسرے مقدس رشتوں پر بھی کیچڑ اچھالا جا تا ہے۔ اقتدار اور حزب اختلاف کے مزے لوٹنے والے سیاست دانوں کی مبینہ لوٹ مار ….. عادات و اطوار، سیاسی و عوا می و سماجی رویوں کے حوالے سے انہیں مختلف القابات سے بھی نوازا جاتا ہے۔ جیسے مسٹر ٹین پرسنٹ، ڈیزل، ٹلی، قبضہ

مافیا، سسلین مافیا، سمگلر چور، ڈاکو، بد عنوان، بد دیانت، بزدل، غدار، لوٹے، لٹیرے، چوبغتے، جھوٹے، پر مٹ مافیا، دشمن کے ایجنٹ، ڈکٹیٹر، اسٹیبلشمنٹ کے پٹھو، سلیکٹیڈ، امپورٹڈ اور ایسا کچھ بھی کہہ دیا جاتا ہے۔ جس کی اخلاقیات و جمہوری اقدار اجازت بھی نہیں دیتیں۔ اور اگر لمحہ موجود میں ملک کے موجودہ سیاسی ماحول پر ایک غائرانہ نظر ڈالی جائے تو ایسے ہی لوگوں کی اکثریت آئندہ انتخابات میں ایوانوں تک پہنچنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں مصروف ہیں۔ قیا م پاکستان سے لمحہ موجود تک اس ملک پر جو آمرانہ اور سیاسی قوتیں برسرِ اقتدار رہیں اگر وہ ملک و قوم کو ا ولین ترجیح دیتیں تو آج پاکستان کے پچیس کروڑ سے زائد عوام ایک خوشحال اور باوقار قوم بن کر دنیا کی قیادت کر رہے ہوتے۔ تاہم اس کیلئے قوم کا سچا درد رکھنے والے رہنما کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ اللہ ایسے رہنما عطا فرمائے۔ پاکستان جیسے خوبصورت ملک کیلئے ….. کہ جس کا نہری نظام روس کے نہری نظام سے تین گنا بڑا ہے۔ اور یہ وہ ملک ہے جو مٹر کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے، خوبانی، کپاس اور گنے کی پیداوار کے لحاظ سے چوتھے، پیاز اور دودھ کی پیداوار کے اعتبار سے چھٹے، آم کی پیداوار کے لحاظ سے ساتویں، چاول کی پیداوار کے اعتبار سے آٹھویں اور گندم کی پیداوار کے لحاظ سے ساتویں نمبر پر ہے۔ اس ملک کی زمین قیمتی معدنی ذخائر، اجناس، پھلوں اور سبزیاں پیدا کرنے کے اعتبار سے بہت ذرخیز ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں اکثریت حاصل کر کے برسرِ اقتدار آنے وا لی جماعت ملکی ترقی سے جڑے وسائل میں اضافہ کرنے کیساتھ ساتھ کھربوں ڈا لر کے غیر ملکی قرضوں سے وطن کو نجات دلانے کی طرف بھر پور توجہ دے۔ کہ بعد ا زاں انتخابات میں پھر برسرِ اقتدار آنے کیلئے ایسے اقدامات کرے جو ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے منافی اور عوامی خواہشات سے متصادم ہوں۔ کیونکہ ماضی میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ برسرِ اقتدار جماعتیں اپوزیشن کو دبانے ….. اپنے سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانے کو بھی اپنی ترجیحات میں سر فہرست رکھتی رہی ہیں۔ جبکہ جمہوری اقدار کو مضبوط بنانے کا تقاضہ یہی ہے کہ سیاسی علاقے اور دوسرے تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف آئینی قانون اور جمہوریت کی بالا دستی کیلئے تمام ممکنہ وسائل کو بروئے کار لایا جائے۔ او ر ایسے ترقیاتی منصوبے بنائے جائیں جن میں 100 فیصد عوامی خواہشات و مفادات شامل ہوں۔ عوام ماضی میں ان سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں لا کر یہ مشاہدہ اور تجربہ کر چکی ہیں کہ انہوں نے انتخابات سے پہلے جو منشو ر دیئے تھے ….. بر سرِ اقتدار آنے کے بعد ان پر عمل درآمد کی بجائے ان کی ترجیحات کچھ اور ہوتی تھیں۔ اگر کوئی حکومت ملکی مفاد پر مبنی اقدامات اٹھاتی بھی تھیں تو اکثر اوقات حزب اختلاف اس کے راستے میں روڑے اٹکاتی اور بے جا تنقید کے ذریعے اس کے عزائم کو کمزور کر دیتی تھیں۔ گزشتہ سات دہائیو ں کے

دوران ہم بہت سے حادثوں، المیوں، قومی حوادث اور دوسری مشکلات اور ناکامیوں سے دوچار ہو چکے ہیں۔ ہمیں امید ہے آئندہ انتخابات کے نتیجے میں سامنے آنیوالی سیاسی قیادت ان منفی سرگرمیوں کا اعادہ نہیں کرے گی۔ جن کی وجہ سے یہ ملک آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی طرف آیا ہے اور جمہور …. جمہوریت اور جمہوری اقدار کو استحکام ملنے کی بجائے بساط جمہوریت تماشہ گاہ بنی رہی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں