Warning: Undefined variable $forward in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 78

Warning: Undefined variable $remote in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 84

شاعر ِ آفاقیت، شاعر ِ انسانیت جوش ملیح آبادی آج بھی پورے آب و تاب کیساتھ شاعری کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ فرخ جمال ملیح آبادی

چیئر مین جوش ملیح آبادی فاؤنڈیشن اسلام آبا د …. رائٹر، شاعر، فرخ جمال ملیح آبادی …. نواسے جوش ملیح آبادی کا خصوصی انٹرویو
اردو شاعری کا طمطراق …. شعور سے لاشعور تک ہمارے ذہنوں و قلوب کو اپنی گرفت میں لینے والا شاعر…. شاعر ِ اعظم، شاعرِ آفاقیت، شاعرِ انسانیت، شاعر ِ انقلاب وشباب ’’جوش ملیح آبادی“ پورے آب و تاب کیساتھ آج بھی اردو شاعری کے ماتھے کا جھومر ہیں جوش کے انقلابیت کو پرکھیں تو وہ کہتے ہیں
کام ہے میرا تغیر، نام ہے میر ا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب
جوش کو انسان دوست کہیں

یا احترامِ آدمیت کا علمبردار ….. وہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ
کوئی حد ہی نہیں اس احترام ِ آدمیت کی
بدی کرتا ہے دشمن اور ہم شرمائے جاتے ہیں
جوش ملیح آبادی کو ہم سے بچھڑے 43 سال بیت رہے ہیں …. جوش کا جلایا ہوا ایوانِ آگہی میں چراغِ آفتاب بن کر ہمیں علم و شعور و فکر کی آبیاری کر رہا ہے اور جوش افق لحد سے طلوع ہو چکا ہے۔
مجھے یہ فخر ہے کہ اپنے والدین سے والہانہ محبتوں و چاہتوں کے بعد مجھے اپنے عظیم نانا …. میرے بابا ….. حضرت جوش ملیح آبادی کی محبتیں و شفقتیں میسر ہوئیں، وہ ان کی سانسوں کی مہک مجھے آج بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے ….. ہمارے بابا ہم سب کے بہتر مستقبل کی خاطر اپنے بزرگوں کے دیش ہندوستان سے ہجرت کر کے اس بے قدرے خطے میں چلے آ ئے ان کی ایک رباعی پیش کرتا ہوں:
اولاد کی فکر سے جو ہوتا نہ تباہ
تو جوش، تیرے در پہ نہ آتا اے شاہ
ٓٹھوکر بھی و جو مارتا، سر تاج و علم
پاپوش کی توہین سمجھتا و اللہ….!!
ان فکر انگیز خیالات کا ا ظہار جوش ملیح آباد ی کے نواسے فرخ جمال ملیح آبادی نے ہمیں دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو کے دوران کیا۔ فرخ جمال ملیح آبادی جو کہ ”جوش ادبی فاؤنڈیشن“ اسلام آباد کے چیئرمین ہیں۔ وہ خود بھی دو کتابوں کے مصنف ہیں، ان کی کتابیں جو شائع ہو چکی ہیں ”جوش ….. میرے بابا….

شخص و شاعر۔ جوش ملیح آباد ی …. ملیح آباد سے ا سلام آبا د تک، روداد سفر، ملازمتیں و قیام گاہیں۔ تیسر ی کتاب جو کہ زیرِ طباعت ہے ’’خاندانِ جوش ….. اور ماضی کے دھند لکے۔ فر خ جمال ملیح آبادی 32 سال سے پاکستان ٹیلی ویژن سے وابستہ رہے۔ ابھی بھی ایک نجی ٹی وی چینل میں بطور سنیئر آفیسر وابستہ ہیں۔ ادب پر ان کی گہری نظر ہے ….. ادبی دنیا کی آبیاری کرنے میں ا پنے نانا جوش ملیح آبادی کا پیغام دنیا بھر میں پہنچانے میں اپنی کاوشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ ہم نے فرخ جمال سے خصوصی انٹرویو کیا جو نذر قارئین ہے۔
س:۔ آپ عوام کو …. لو گوں کو جوش ملیح آبادی کے بارے میں اپنے لفظوں میں کس طرح بتانا چاہیں گے ؟
ج:۔ ہمارے بابا …. جو مفکر عصر بھی ہیں …. شاعر و آفاقیت بھی۔ شاعر ِ انسانیت ….. حضرت جوش ملیح آبادی بھی اور شاعرِ انسان دوست بھی۔

جنہوں نے دینِ اسلام کا سب سے اولین درس ”انسان سے انسان“ کا پیار، دوستی و اخوت پر مبنی ہے….. تمام عالم ِ نوعِ انسانی کو دیا۔ حضرت جوش کی ایک خوبصورت نظم ”وحدتِ انسانی“ کے چند بند ان کے مجموعہ کلام ”الہام و افکار“ سے پیش کر رہا ہو ں۔
اے دوست، دل میں کدور ت نہ چاہئے
اچھے تو کیا، بروں سے بھی نفرت نہ چاہئے
کہتا ہے کون، پھول سے رغبت نہ چاہئے
کانٹے سے بھی، مگر تجھے وحشت نہ چاہئے
س:۔ جوش ملیح آبادی کو اپنے مخصوص کلام کے باعث بے پناہ مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا ؟

ج: جی بالکل ! ہمارے نانا ….. ہمارے بابا …. جوش ملیح آبادی جنہیں چند نام نہاد رجعت پسند ’’مذ ہبی اسکالرز“ نے دین سے ہی خارج کر دیا کہ یہ ملحد ہیں … ا ن پر کفر کے

فتوے جاری کر دیئے …. مگر جوش صاحب نے انہیں کوئی جواب نہ دیا، کیونکہ میں نے انہیں جہاں تک قریب سے دیکھا …. ان کی فکر کو اپنی سانسوں میں کھینچا …… وہ منکرِ خدا تو کبھی رہے ہی نہیں …. ان کا ایک شعر ہی اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرتا ہے کہ
ہم ایسے اہل ِ نظر کو ثبوتِ حق کیلئے
اگر رسول نہ ہوتے ….. تو صبح کافی تھی

حضرت جوش کا رثائی ادب شاید ان تنگ نظر اسکالرز کی پہنچ سے بہت دور ہے …… جس میں حمد ہے

….. نعتیں ہیں …. اور آلِ نبی کی مدحت میں جو کلام کہا وہ سب انہیں کم از کم ملحد کے دائرے سے دور رکھتا ہے۔ زیرِ نظر حضرت جوش ملیح آبادی کا وہ لاثانی منظوم تاثر جو انہوں نے ”سورہ رحمان“ کیلئے تخلیق کیا، آج تک کسی شاعر کو میسر نہیں ہے۔ جوش صاحب کہتے ہیں
ارے ان کعبہ و کاشی کے دیوانوں کے نر غے میں
مجھے منجملہء کفار رکھا جائے گا کب تک
اس انسان کو جو ز نجیر ِ دو عالم توڑ بیٹھا ہے
الہی ان مردہ مادر زاد بہروں میں
مجھے شرمندہ ء گفتار رکھا جائے گا کب تک
س:۔ سر تعلیمی نصاب میں بھی جوش ملیح آبادی کی شاعری شا مل رہی ہے ؟
ج:۔ جی بالکل ! ان کا کلا م نصاب میں شامل رہا ہے ….. لیکن بدقسمتی سے مارشل لاء لگتے رہے اس کا نقصان بہت ہوا۔ ایوب خان نے مارشل لاء لگا کر ملک کا بیڑ ہ غرق کیا۔ ضیاء الحق کے دور میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا ….. جوش ملیح آبادی چو نکہ ہمیشہ سچ اور حق کی بات کرتے تھے ا ور ترقی پسند تھے …. یہ حکمران اپنے خلاف بات نہیں سننا چاہتے تھے …. انہو ں نے اپنے دور میں مارشل لاء لگا کر جوش ملیح آبادی اور دیگر ترقی پسند شاعروں پر پابندیاں لگائی رکھیں اور ان کا نصاب سے کلام ختم کروا دیا۔

ان کا تو پاکستان میں سانس لینا مشکل ہو گیا۔ فیض احمد فیض، فراز احمد فراز، ان تمام شاعروں کو اس دور میں بہت مشکلات اور پابندیوں، سختیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ فرخ جمال نے ہم سے گفتگو کے دوران بتایا کہ جب بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت تھی، بیگم نصرت بھٹو اس وقت فیڈرل منسٹر تھیں …… میری اس وقت ان سے ملاقات ہوئی انہوں نے ملاقات میں اس بات کا اظہار کیا کہ ہم تو جوش ملیح آبادی کو بہت شوق سے پڑھتے اور سنتے ہیں۔ انہوں نے اسی وقت تمام اداروں کو آرڈر جاری کر کے تمام پابندیا ں ختم کروائیں اور ٹی وی اور ریڈیو پر جوش ملیح آبادی کے پروگرام دوبارہ شروع کروائے۔
س:۔ آج کے دور میں جوش ملیح آبادی کا کلا م نصاب میں شامل ہے ؟
ج:۔ ایوب خان نے تو ان کلام ختم کروا دیا تھا ….. ڈاکٹر بلال نقوی جو جوش کے شاگردوں میں شامل ہیں۔ خود بھی شاعر، محقق، معلم ہیں۔ یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی کاوشوں سے جوش کا کلا م نصاب میں شامل کروا یا ہے۔
س:۔ سر آجکل کے بچوں اور نوجوانوں کو ”جوش ملیح آبادی“ کی شاعری او ر دیگر کلام کے حوالے سے اتنا

شعور نہیں …. جتنا ہونا چاہئے ؟
ج:۔ یہ کام تو حکومتوں کے کرنے کے ہیں ….. اس د ور کے شاعر اور ادب کو زندہ رکھنے اور نئی نسل میں شعور او ر آگہی بیدار کرنے کیلئے تعلیمی اداروں میں پروگرام منعقد کروانے چاہیں …. اور ان شاعروں کی سوچ اور فکر کو پر وان چڑھا یا جائے۔ آ جکل کے دور میں فرقہ پرستی اور خو ن ریزی عام ہوتی جا رہی ہے …. افسوسناک صورتحال بچوں کو اردو ادب سے ہی دور کر دیا گیا ہے۔ جوش کی شاعری میں فکر، ترقی، آدمیت محبت …. انسان محبت کی بات ہے …. ان کی شاعری میں زیادہ بات انسان محبت پر ہی ہے۔

ان کا کلا م اے لیول اور اولیول تک شامل ہونا چاہئے …. تاکہ بچوں اور نوجوان نسل کو زیادہ سے زیادہ ارد و ادب کے قریب کیا جائے اور انسانیت اور آدمیت کی محبت کو فروغ دیا جائے۔
س:۔ سر جوش ملیح آبادی کی شاعری کا بنیاد ی مقصد کیا تھا ؟
ج:۔ انسان کو انسان سے روشناس کروایا جائے …. ان کی شاعر ی کا بنیادی مقصد انقلاب لانا تھا …. وہ انقلاب لانا چاہتے تھے …. شاعر کو محد ود نہ کر دیا جا ئے …. شاعر آفاقی ہوتا ہے۔ میرے خیال میں علاقہ اقبال کے بعد جوش صاحب پہلے شاعر تھے جو فکری، شعوری، انسانیت، محبت کا فلسفہ اجاگر کرنے پر زور دیتے تھے۔ انہوں نے واقعہ کربلا کو انقلابی صورت د ی ….. اور مرثیہ نگاری کو جدید انداز میں پیش کیا ….. انہوں نے انقلابی نظمیں لکھیں …. جوش صاحب انقلابی

شاعر تھے۔
س:۔ سر آپ ان کے فلسفے اور سوچ کو اجاگر کرنے کیلئے کیا کاوشیں کر رہے ہیں ؟
ج:۔ میں نے اسلام آباد میں ”جوش ملیح آبادی“ کے نام سے فاؤنڈیشن بنائی ہوئی ہے …..5 دسمبر کو جوش ملیح آبادی کا یو مِ ولادت ہے …. 22 فروری کو جوش کا یومِ وفات ہے …. اس دن میں بھی ہر سال ان کے حوالے سے پروگرام منعقد کروائے جاتے ہیں …. اس دن کے علاوہ بھی جوش صاحب کے کلام

کو لیکر مختلف پروگرامز اور سیمینارز منعقد کرواتے رہتے ہیں ….. جس میں پاکستان کی بڑی بڑی شخصیات شرکت کرتی ہیں۔ اور شاعر، ادیب اظہار خیال کرتے ہیں۔
س:۔ جوش ملیح آبادی کے نام سے پاکستان میں کہیں اور بھی ادارے ہیں …. یا کو ئی کام ہو رہا ہے ؟
ج:۔ جی بالکل ! کراچی آرٹ کونسل میں جوش ملیح آبادی کے نام سے لائبریری قائم ہے ….. جس کی چیئرپرسن ڈاکٹر فاطمہ ہیں ….. وہ گذشتہ دنو ں اسلام آباد تشریف لائی ہوئی تھیں …. مجھ سے ملاقات کے دوران انہوں نے کہا کہ جوش صاحب کا اور بھی کلام ہمیں دیا جا ئے تاکہ ہم لائبریری میں محفوظ کر دیں …. مزید کلام میں نے ا ن کے حوالے کیا۔ کیونکہ یہ قوم کی امانت ہے۔

س:۔ سر آپ نے کتنی کتابیں لکھیں ؟
ج:۔ میری دو کتابیں ہیں پہلی کتاب ”جوش میرے بابا“ اور دوسری کتاب ”جوش ملیح آباد ی ….. ملیح آباد سے لیکر اسلام آباد تک“۔ اور تیسری کتاب عنقریب آ رہی ہے …. ”خاندانِ جوش“ کے نام سے۔
س:۔ اور مزید جوش ملیح آباد ی کے نام کو زندہ رکھنے کیلئے کیا اقدامات ہو رہے ہیں ؟
ج:۔ ایم کیو ایم کے دور میں کراچی نارتھ ناظم آباد میں ”جوش ملیح آباد ی کے نام سے روڈ بنوائی گئی تھی….. اسلام آباد ”ڈی بارہ“روڈ پر جوش ملیح آبادی کے نام کا بورڈ آویزاں کر دیا گیا ہے۔ اور مزید یہ کہ ”جوش ملیح آبادی“ کی شخصیت ان کی زندگی پر ڈاکو مینٹری فلم بن رہی ہے …. سید اقبال حیدر ایگزیکٹو پروڈیوسر ہیں اس فلم کے ….. وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ آرٹ کونسل میں پچھلے سال اس فلم کی نمائش کی گئی تھی۔ اور ڈاکٹر فاطمہ حسن نے بتایا کہ کراچی میں ”ایوانِ جوش“ بن چکا ہے۔ اس ایوان کو آرٹ کونسل کراچی نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے ….. اس کے تمام معاملات اور اخراجات آرٹ کونسل کے زیر نگرانی ہونگے۔ جوش ملیح آبادی کو ”ہلال ِ امتیاز“ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔
س:۔ (مرحوم) جرنل پرویز مشرف کے والدین بھی جوش ملیح آبادی کے بہت بڑے فین تھے ؟
ج:۔ فرخ جمال ملیح آبادی اس سوال کے جواب میں بتایا کہ جی بالکل (مرحوم) جنرل پرویز مشرف سے ایک فنگشن میں ملاقات کا ا تفاق ہوا انہوں نے ذکر کیا کہ

میرے والدین تو جوش کے بہت بڑے عاشقوں میں سے ہیں …. بلکہ (مرحوم) جرنل پرویز مشرف کے وا لدین جوش کی تقریبات میں باقاعدہ شرکت کیا کرتے تھے۔
س:۔ موجودہ گورنمنٹ کو ادب کو زندہ رکھنے اور پرموٹ کرنے کیلئے کچھ کہنا چاہیں گے ؟
ج:۔ جوش ملیح آبادی کی شاعری اور ان کے کلام کو نصاب میں شامل کرنا چاہئے …. ہمارے بچے اور نوجوان اردو ادب، تاریخ سے دور ہوتے جا رہے ہیں …. خاص کر اولیول ….. اے لیول میں ایک مضمون اور ایڈ کرنا چاہئے جس میں تاریخ، ادب، ان شاعروں کا کلام اس میں شامل کیا جانا چاہے ….. ایک تو آجکل کی نوجوان نسل کو علم ہو …… ان شاعروں کا بنیادی مقصد کیا تھا …… ان کا نظریہ

کیا تھا ….. فکر، سوچ، انسانیت، آدمی محبت ….. لمحہ فکریہ ہماری آج کی نسل اردو ادب اور کتابوں سے دور ہوتی چلی جا رہی ہے او ر د یگر مسائل ان نوجوانوں میں جنم لے رہے ہیں….. ہماری گورنمنٹ کو چاہئے خاص کر تعلیمی اداروں میں ایسی تقریبات کا انعقاد فوقتاً فوقتاً کرنا چاہے …. جس میں ہمارے ملک کا اثاثہ …… ہماری ادبی شخصیات اور شاعر حضرات جنہوں نے اس ملک کی بقا کی جنگ لڑی اپنی شاعری کے ذریعے دنیا کو ایک پیغام دیا۔

ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ سوچ اجاگر ہونی چاہئے کہ محبت، انسانیت کی قدر کیا چیز ہے۔
س:۔ پاکستان کے کن کن نامور گلوکاروں نے جوش ملیح آبادی کی غزلیں، نظمیں گائی ہیں ؟
ج:۔ پاکستان کے ٹاپ کے اور لیجنڈ گلوکاروں میں میڈم نور جہا ں ….. عابدہ پروین ….. استاد حامد علی خاں ….. مسعود رانا …. اور عارفہ صدیقی نے جوش کی لکھی غزلیں اور نظمیں گائی ہیں۔ فلم ”آقا دریا“ کیلئے گانا ”ہوا سے موتی برس رہے ہیں ….. فضا ترانے سنا رہی ہے“۔ یہ جوش کا لکھا ہوا گیت ملکہ ترنم نور جہاں نے گایا تھا ….. اسی طرح گلوکار مسعود رانا نے جوش کا لکھا نغمہ گایا ….. ”اے وطن ہم ہی تیرے شمع کے پروانے ہیں …… زندگی ہوش میں ہے، جوش ہے ایمانوں میں“۔ یہ گیت بہت مشہور ہوا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں