Warning: Undefined variable $forward in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 78

Warning: Undefined variable $remote in /home/glosuive/aishashafiq.com/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 84

ہمیں متوازن تعلیمی نظام کی ضرورت ہے

عابدہ فیاض

ماہرتعلیم محترمہ عابدہ فیاض سابقہ پرنسپل گورنمنٹ گرلز کالج مدینہ ٹاؤن فیصل آباد سے خصوصی انٹرویو

عائشہ شفیق

جس طرح پھول اپنے رنگ اور خوشبو سے پہچانا جاتا ہے ، اسی طرح فیصل آباد کی طلسماتی اور پرکشش شخصیت ، ماہر تعلیم ، فیصل آباد کا ایک بڑا نام ”عابدہ فیاض“ ہیں جو کسی بھی تعریف اور تعارف کی محتاج نہیں … ان کا انداز گفتگو علم و دانائی کی بنیاد پر ہوتا ہے ، ان کی شخصیت شائستگی سے بھرپور ہے ، چہر ے پر ہر وقت مسکراہٹ سجائے رکھتی ہیں . یوں مضبوط شخصیت کی مالک یہ خاتون ہر ملنے والے پر ایک سحر طاری کر دیتی ہیں ۔

پنجاب کے دوسرے بڑے کالج گورنمنٹ گرلز مدینہ ٹاؤن کی7 سال پرنسپل رہیں ، اس سے قبل کافی عرصہ گورنمنٹ گرلزکالج کارخانہ بازار کی پرنسپل کے طور پر اپنے فرائض انتہائی خوش اسلوبی سے سرانجام دیئے ۔ گزشتہ کچھ سالوں سے کبھی پاکستان میں رہتی ہیں اور کبھی باہر کے ممالک اپنے بچوں سے ملنے جاتی ہیں . اور پھر انھیں وہاں کچھ عرصہ رہنے کا اتفاق ہوتا ہے ۔ان سے تعلیمی موضوع، مسائل پر گفتگو کی گئی۔۔جو نذرقارئین ہے۔

س۔ میڈم ! پاکستان کے تعلیمی نظام کے بارے میں کیا کہیں گی؟

ج۔ تعلیمی نظام میں اصلاحات کی گنجائش تو ہمیشہ رہتی ہے ، تعلیمی نظام کو نہ تو مکمل طور پر مدرسوں پر چھوڑا جاسکتا ہے اور نہ ہی مکمل طور پر دوسری قسم کے تعلیمی اداروں پر۔ آپ باہر کے ممالک کو دیکھ لیں . دنیا ترقی کرکے کہاں سے کہاں پہنچ گئی اورہم کہاں کھڑے ہیں؟

مغربی ممالک کو دیکھ لیں ان کے پاس فیشن اور دکھاوے کا وقت نہیں ، ان کی توجہ صرف اور صرف اپنے کام پر ہے، وہ لوگ صبح و شام کام کرتے ہیں ۔ اور ہمیں فیشن , فضول خرچی اور وقت کے ضیاع سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ ہمارے تعلیمی نظام کو آئیڈلوجی کا تڑکا نہیں لگایا گیا ۔ تعلیمی نظام کو اپ ڈیٹ کرنے میں علماء کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا . ہم اس طرح نہیں چل سکتے۔ ہمیں متوازن تعلیمی نظام کی ضرورت ہے ۔ دین و دنیاوی کے علوم کو دونوں کو ساتھ لیکر چلنے کی ضرورت ہے۔

عابدہ فیاض
عابدہ فیاض

س۔تعلیم کے شعبے میں مسائل کیا ہیں؟

ج۔تعلیم کے شعبے میں سب سے اہم اور بڑا مسئلہ ایک تو دیہاتی علاقوں میں تعلیم کافقدان ہے۔ ہمارے ملک کی80فیصد آبادی تو دیہاتوں میں رہتی ہے۔ گاؤں میں جاگیردار، سرمایہ دار لوگ کبھی بھی نہیں چاہتے کہ نچلے طبقے کے لوگ پڑھ لکھ کر آگے آئیں۔ دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ ایجوکیشن سیکٹر میں ڈی او، ای ڈی او، اساتذہ سفارش پر بھرتی کئے جاتے ہیں ۔ ان کی سلیکشن کو میرٹ پر کیا جائے ، اسی طرح اساتذہ کو مکمل میرٹ پر بھرتی کیا جائے ، اساتذہ کوالیفائیڈ ہوں ۔ اگر آنے والی نسلوں کو لائق , قابل تیار کرنا ہے تو اساتذہ بھی قابل ہونے چاہئیں انہیں اپنے اپنے مضمون پر مکمل گرفت ہو۔

س ۔ گورنمنٹ اور پرائیویٹ اداروں میں تعلیمی نظام ، ماحول ، اساتذہ ہر چیز میں زمین و آسمان کا فرق ہے اس بارے میں کیا کہیں گی؟

ج ۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی خاص بات ! انہوں نے اپنے تعلیمی معیار ، کوالٹی پر کبھی کمپرو مائز نہیں کیا۔ تعلیم یافتہ اورپرکشش اساتذہ بھرتی کی جاتی ہیں ۔ گورنمنٹ تعلیمی اداروں کو اپنے لباس ، اپنی گفتگو پر خاص توجہ دی جانی چاہئے۔ ڈائریکٹرز کو چاہئے کہ سلیکشن کرتے وقت ان کا لباس ، اندازِ گفتگو اور تعلیمی معیار سب کچھ دیکھ کر سلیکشن کریں۔ بلکہ ان کی ٹریننگ اور کورسز میں یہ چیزیں شامل ہونی چاہئیں.

اساتذہ کی پرکشش شخصیت بچوں پر بڑا خوشگوار اور مثبت اثر ڈالتی ہے ۔ اساتذہ کو ہمیشہ پرکشش نظر آنا چاہیے ۔ جب سکول ، کالج اور یونیورسٹی میں اساتذہ لیکچرز دینے آئیں تو مکمل تیاری سے آئیں … روزانہ کی بنیاد پر مکمل تیاری سے اور اپ ڈیٹ ہو کر آئیں ۔ المیہ تو یہ ہے90فیصد اساتذہ لائبریری ہی نہیں جاتے ۔ اساتذہ کا کتاب سے دور ہونا انتہائی پریشان کن صورتحال ہے ۔ ایسا ہونا نہیں چاہیے۔

عابدہ فیاض

س۔ میڈم آج کل انٹر نیٹ کادور ہے ،نیٹ کی دنیاسے سب مل جاتا ہے تو کتابوں اور مطالعہ سے دوری تو ظاہری بات ہے .. ہوتی چلی گئی؟

ج ۔ انٹرنیٹ کے فائدے، نقصان دونوں ہے ۔ ظاہر ہے ٹیکنالوجی کا دور ہے نیٹ سے کٹ کر تو ہم نہیں رہ سکتے ۔ ہمیں دنیا کے ساتھ مل کر چلنا ہے … بہرحال اساتذہ کو ہرحال میں لائبریر ی جانا چاہئے…کتابوں سے محبت، دوستی تو لازماً رکھنی چاہئے . اساتذہ کا اپنا کردار بہت اہم ہے بچوں میں اچھا، برا مکمل شعور دیں ۔ خاص کر والدین کو اپنے بچوں پر”چیک اینڈ بیلنس“ کا نظام قائم رکھیں ۔ سختی ہرگز نہ کریں ۔ پیار و محبت سے ان کو آگاہی دیں ۔ انٹر نیٹ کے فائدے ، نقصان سے آگاہ رکھیں۔

س۔میڈم ! اب تو ہر گلی ، محلے میں پرائیویٹ سکول کھل گئے ہیں ، اس بارے میں کیا کہیں گی؟

ج۔ گورنمنٹ کو چاہئے ان اداروں کو رجسٹرڈ کرے ، اور ان پر شرائط عائد کرے ، اور دیکھے کہ وہ ان شرائط پر پورا اتر رہے ہیں یا نہیں؟ گورنمنٹ کو اپنے تعلیمی اداروں کوبہتر سے بہتر کرنے کی بہت ضرورت ہے ، اپنے اداروں ، ماحول کو اتنا پرکشش بنائیں کہ بچے آئیں ۔ گورنمنٹ تعلیمی اداروں میں ابھی مار پیٹ اور بچوں پر تشدد کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ اس چیز کی کمی ہے اس کو بہتر سے بہتر کرنے کی ضرور ت ہے .. پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں ماحول ، کوالیفائیڈ اساتذہ ، پرکشش اور خوبصورت ، پرسکون ماحول ، اساتذہ کی خوبصورت شخصیت بچوں پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔

س ۔ تعلیمی نظام کو کیسے بہتر کیا جائے؟

ج۔سیاسی اور با اثر شخصیات کا تعلیمی اداروں پر بہت زیادہ influnce ہے ، سفارش کا نظام ، سلیبس میں فرق، ہرحال میں اپنی ایک دو زبانیں شامل کی جانی چاہیں ۔ آپ باہر کے ملکوں کے تعلیمی نظا م کو دیکھ لیں، ان کی اپنی ایک دو زبانیں لازمی شامل ہوتی ہے ۔ سلیبس کو آسان رکھیں . چوائس رکھیں ، محبت بھرا ماحول رکھیں . بچوں کو سب کچھ پیار سے سکھائیں ۔ اپنی دینی اقدار کو ہر گز نہ چھوڑیں … ہم ان کے دوسرے کلچر کو اپنا رہے ہیں . . اس رنگ میں ڈھلتے چلے جارہے ہیں۔ ۔جس چیز کی نہ ہمیں اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ ہمارا معاشرہ۔۔تعلیمی نظام کو اصلاحات کے ذریعے اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے . تعلیم۔۔ٹیکنالوجی کے میدان میں ان کامقابلہ کرنے کیلئے آگے بڑھنے کیلئے بہت کچھ پڑے گا۔تب ہی ہم ترقی کی دوڑ میں شامل ہوسکتے ہیں۔

ممتاز شاعر امجد اسلام امجد کو شیلڈ دیتے ہوئے

س ۔ ٹیوشن سنٹرز بہت عام ہوتے جارہے ہیں … بچوں کی اکثریت ٹیوشن سنٹرز میں نظر آتی ہے ۔۔ اور والدین اپنا کردار اس طرح ادا نہیں کررہے جو کرنا چاہئے؟

ج ۔ یہ ایک الارمنگ صورتحال ہے ، اس مادہ پرستی کے دور میں ہم اتنے مصروف ہیں کہ ہمارے اپنے ہی بچوں کیلئے ہمارے پاس وقت نہیں .. والدین اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ بچوں سے بڑھ کر والدین کیلئے اور کیا قیمتی سرمایہ ہوسکتا ہے ۔ باپ زیادہ سے زیادہ کمانے میں مصروف عمل ہے اسی طرح ماں بھی اپنی روزمرہ کی مصروفیت میں مصروف نظر آتی ہے … اس دوڑ میں بچے نظر انداز ہو رہے ہیں .. والدین غافل ہو رہے ہیں .. والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کیلئے روزانہ کی بنیاد پر وقت نکالیں …

اول تو خود پڑھائیں خاص کر چھوٹے بچوں کو … اگر ٹیوشن بھی جاتے ہی تو ان پر نظر رکھیں , چیک کریں کیا پڑھا کیا نہیں؟باپ اپنے بیٹے کو اپنا دوست بنائے ماں اپنی بیٹی کو اپنی دوست بنائے… وہ کبھی بھی باہر اپنے لئے ماحول تلاش نہیں کرے گا۔ بچے باہر کے اپنے ہر طرح کے مسائل اپنے والدین سے آسانی سے شیئر کرسکیں . بچوں کو اپناFlavourدیں۔بہت سے ٹیوشن سنٹرز مثبت کردار ادا کر رہے ہیں اور بہت سے ٹیوشن سنٹرز بھی اب کاروباری شکل اختیار کر چکے ہیں۔

س ۔ خواتین کوملازمت میں کام کرنے میں مسائل کاسامناہے؟ اس بارے میں کیا کہیں گی؟

ج۔اب ذرا مردوں کوحوصلہ کرنا پڑے گا خواتین کو کام کرنے میں ان پر اعتماد کریں .. ان کو حوصلہ دیں ۔ انسان کو بحیثیت انسان ہی رہنے دیں . خواتین کو بھی اپنے مثبت کردار اور رویے ثابت کرنے دیں . آنے والی نسلوں کیلئے راستے کھولیں جیسے ایک ایک پرندہ باری باری اپنے کھانے اپنے گھر بنانے میں کردار ادا کرتا ہے , اسی طرح گھر کے ہر فرد کو اپنی ذمہ داری نبھانی چاہئے … مردحضرات بھی خواتین کو کام کرنے کے مواقع فراہم . اپنی بہن، بیوی، بیٹی کو سپورٹ کریں اورخواتین کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی چادر چار دیواری کے تقدس کو پامال نہ ہونے دیں , اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔

خواتین کو ایک اہم پیغام دینا چاہوں گی کہ آزادی کامطلب بے لگام آزادی نہیں .. اپنی جڑوں کو تھامے رکھیں .. کام کریں اپنی حدودو قیود میں رہ کر ۔ اور عورت اپنے کردار اپنے عمل سے ثابت کر بھی رہی ہے .. مثبت تبدیلیاں آ بھی رہی ہیں…معاشرہ تبدیل ہو رہا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

2 تبصرے “ہمیں متوازن تعلیمی نظام کی ضرورت ہے

  1. محترمہ عابدہ فیاض صاحبہ بلاشبہ ایک انتہائی اعلی ماہر تعلیم ، دانشور اور مدبر خاتون ہیں ، آپ کا انٹرویو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ کہ ایک سچا اور تجربہ کار ماہر تعلیم کس طرح کی اپروچ رکھتا ہے ، ایک بہت اعلی انٹرویو ۔۔ ما شا اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں